صدر مملکت آصف علی زرداری نے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی سے متعلق بل پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد یہ بل باضابطہ طور پر قانون کا حصہ بن گیا ہے۔ اس قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی نہ صرف غیر قانونی قرار پائے گی بلکہ اس میں شریک تمام افراد قابل سزا ہوں گے۔
نئے قانون کے مطابق نکاح خواں، نکاح رجسٹرار، والدین، اور شادی میں معاونت کرنے والے ہر فرد کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
قانون کی اہم شقیں:
نکاح رجسٹرار پر لازم ہوگا کہ وہ 18 سال سے کم عمر بچوں کا نکاح رجسٹر نہ کرے، اور نکاح سے قبل دونوں فریقین کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کی جانچ کرے۔
خلاف ورزی کی صورت میں ایک سال قید، ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
18 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی کرنے والے مرد کو کم از کم 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 3 سال قید بامشقت کی سزا سنائی جائے گی۔
نابالغ لڑکی یا لڑکے کو شادی پر آمادہ یا مجبور کرنے والا شخص جنسی زیادتی کے مترادف جرم کا مرتکب شمار ہوگا۔
نکاح کرانے یا اس میں مدد فراہم کرنے پر 5 سے 7 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔
شادی کی غرض سے نابالغ بچوں کو ملازمت پر رکھنا، پناہ دینا یا تحویل میں لینا بھی جرم ہوگا، اور اس پر 3 سال قید اور جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
والدین اور سرپرست بھی اس قانون کے تحت جواب دہ ہوں گے۔ کم عمر بچوں کی شادی پر والدین کو 3 سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔
اگر کسی بچے کو شادی کے لیے علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، تو اسے بچوں کی اسمگلنگ سمجھا جائے گا، جس کی سزا 5 سے 7 سال قید اور جرمانہ ہوگی۔
عدالتوں کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ایسے نکاح کو روکنے کے لیے حکم امتناع جاری کریں۔ قانون کے تحت تمام مقدمات کو 90 دن کے اندر نمٹانا لازم قرار دیا گیا ہے۔
یہ قانون وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فوری طور پر نافذ العمل ہوگا، جبکہ صوبوں میں اس کا نفاذ متعلقہ قانون سازی کے بعد ہوگا۔