بھارت میں مودی حکومت کی زیرِ قیادت بی جے پی ایک بار پھر ہندوتوا ایجنڈے کو پروان چڑھاتے ہوئے پہلگام حملے پر اپنی نااہلی کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ تحقیقات کے نام پر عوام کو صرف دعوے سنائے جا رہے ہیں، لیکن کوئی ناقابلِ تردید ثبوت اب تک پیش نہیں کیا جا سکا۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتی حکام نے الزام عائد کیا کہ دو کشمیری نوجوانوں نے معمولی رقم کے عوض پاکستانی حملہ آوروں کی مدد کی، اور ان میں سے ایک مبینہ طور پر مظفرآباد اور کراچی بھی گیا۔ مزید 15 افراد کو "اوور گراؤنڈ ورکرز” قرار دے کر ان پر دہشتگردوں کو سہولت فراہم کرنے کا الزام لگایا گیا — لیکن ان تمام الزامات کو کسی مصدقہ ثبوت کے بغیر ہی میڈیا کی زینت بنا دیا گیا۔
تحقیقات کا رخ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مقصد شفافیت یا انصاف نہیں، بلکہ سیاسی پروپیگنڈے کو ہوا دینا ہے۔ مذہبی شناخت کو بنیاد بنا کر الزامات عائد کرنا بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے فرقہ وارانہ رجحانات کو بے نقاب کرتا ہے۔
بھارتی میڈیا نے اس واقعے کو ہندو مسلم منافرت کے تناظر میں پیش کر کے نفرت کی آگ کو مزید بھڑکانے کی کوشش کی، جبکہ کشمیری عوام کو چند پیسوں کے عوض غدار قرار دینا ایک سیاسی چال معلوم ہوتی ہے تاکہ اندرونی سیاسی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے۔
پورے علاقے کو اجتماعی سزا دینا اور انسانی حقوق کو پامال کرنا، عالمی اصولوں اور اقدار کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بھارت کی ہمیشہ کی طرح یہ کوشش رہی ہے کہ حملہ آوروں کو پاکستان سے جوڑ کر اپنی داخلی نااہلیوں کا پردہ پوشی کی جائے۔
دوسری جانب پاکستان نے شفاف تحقیقات کی پیش کش کی، جسے بھارت نے مسترد کر کے خود ہی اپنے بیانیے کی کمزوری کو واضح کر دیا۔ اگر بھارتی الزامات میں سچائی ہے تو عالمی برادری کے سامنے ثبوت پیش کرنا چاہیے، نہ کہ صرف جذباتی بیانات اور مفروضوں پر انحصار۔