اسلام آباد (نیوز رپورٹر )ایوان بالا میں اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود متنازعہ پیکا ترمیمی بل 2025 اور ڈیجیٹل نیشن بل 2025 منظور کر لیے گئے ۔
پی ٹی آئی اراکین کی جانب سے ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی کی گئی جبکہ صحافیوں نے احتجاجا ایوان بالا سے واک آﺅٹ کیا ۔ ا ے این پی کے ارکان بھی ایوان سے واک آﺅٹ کر گئے۔ منگل کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر کی زیرصدارت سینیٹ اجلاس شروع ہوا، تو وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری کی تحریک پیش کی جبکہ وفاقی و زیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل منظوری کے لیے پیش کرنے کی تحریک پیش کی گئی جس پر اپوزیشن اراکین نے شدید احتجاج کیا۔
اپوزیشن ارکان کی جانب سے چیئرمین ڈائس کے سامنے شدید احتجاج اور شور شرابا کیا گیا، متنازعہ پیکا ایکٹ نامنظور کے نعرے لگائے گئے۔ اجلاس میں پی ٹی آئی اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور پیکا ایکٹ نا منظور کے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔ قائد حزب اختلاف شبلی فراز سمیت دیگر اپوزیشن سینیٹرز اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور کچھ ڈائس کے قریب پہنچ گئے۔ شبلی فراز نے اس موقع پر سیکرٹری سینیٹ کے ساتھ برہمی کا اظہار بھی کیا۔حکومت نے سینیٹر کامران مرتضی کے اعتراضات کی مخالفت کرتے ہوئے ان کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم مسترد کردیں۔جس کے بعد سینیٹ میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل منظور کرلیا گیا۔
اسی دوران اے این پی کے سینیٹرز وزیر قانون کے پاس پہنچ گئے اور پیکا ایکٹ کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اے این پی کے ارکان نے ایوان سے واک آﺅٹ کر لیا۔ سینیٹ میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ کے ذریعے بولنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور میڈیا سے مشاورت نہیں کی گئی۔ ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں۔
متنازع پیکا ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کئے جانے پر صحافیوں نے بھی پریس گیلری سے واک آﺅٹ کردیا۔پارلیمانی رپورٹر کی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ پیکا ترمیمی بل کالا قانون ہے جو نامنظور ہے۔اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی نیا قانون لایا جاتا ہے تو اس کی نیت دیکھی جاتی ہے، سوشل میڈیا ہو یا چاہے جو بھی میڈیم ہو اسے خاص دائرہ میں رہ کر بات کرنی چاہیے، اس بل کا مقصد ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ٹارگٹ بنانا ہے۔
شبلی فراز نے کہا کہ قانون لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے بنائے جاتے ہیں، ایک قانون بننے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ شبلی فراز نے کہا کہ ایک قانون بننے میں وقت لگتا ہے، وزیر قانون آتے ہیں، آج ایک قانون بنا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ بس کومہ وغیرہ کی درستگی کی ضرورت ہے، فوری طور پر اسے منظور کرلیں۔شبلی فراز نے کہا کہ صحافی آج اپنے پیشہ ورانہ امور کے حوالے سے تحفظات پر احتجاج پر مجبور ہیں، کیا حکومت نے متعلقہ شراکت داروں سے مشورہ کیا ہے؟، یہ قانون برائے اصلاح نہیں، قانون برائے سزا ہے، اور ہم اس کے لیے استعمال نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر سینیٹ اس قانون کو منظور کرلیتا ہے تو لوگ کہیں گے، ان سب نے ملکر اسے منظور کیا ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، ہم نے اس بل کی مخالفت کی ہے، اس دوران ظہر کی اذان کی وجہ سے اجلاس کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دیا گیا، جو کچھ دیر میں دوبارہ شروع ہوگا۔ ہنگامہ آرائی کے دوران پیکا ایکٹ بھی منظور کرلیا گیا۔ اپوزیشن ارکان نے بل مخالفت کی جبکہ پیپلزپارٹی نے بل کے حق میں ووٹ دیا، بل دونوں ایوانوں سے منظور ہوگیا جو اب صدر مملکت کو بھجوایا جائے گا۔