لاہور:
پاکستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق فیصلے عموماً بڑوں کے نقطہ نظر سے کیے جاتے ہیں اور بچوں کی اصل آواز کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پالیسی ساز ادارے اور ماہرین بچوں کی حقیقی ضروریات اور تجربات کو شامل کیے بغیر پالیسیاں بناتے ہیں، جس کی وجہ سے بچوں کی شرکت اور ان کے حقوق کا تحفظ متاثر ہوتا ہے۔
تاہم، لاہور کی 16 سالہ ابیہہ بتول نے بچوں کی شراکت داری کی اہم مثال قائم کی ہے۔ ابیہہ نہ صرف اپنے اسکول کے بچوں کے فورم کی رکن ہیں بلکہ انہوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی چائلڈ رائٹس کانفرنس میں شرکت کر کے بچوں کے لیے جامع سماجی تحفظ کا مطالبہ بھی کیا۔
ابیہہ نے پنجاب کے وزیر برائے انسانی حقوق، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن، اور نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے ممبران سے ملاقات کر کے بچوں کے حقوق کا چارٹر بھی پیش کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو پالیسی سازی میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اعتماد اور سماجی ذمہ داری کا احساس پیدا کریں، ورنہ بچوں کے مسائل مثلاً جنسی استحصال اور گھریلو تشدد چھپے رہ سکتے ہیں۔
این سی آر سی کی چیئرپرسن عائشہ رضا خان نے کہا کہ بچوں کو ان کے حقوق کے حوالے سے سننا اور ان کی رائے کو سنجیدگی سے لینا انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا جہاں بچوں کی اپنی رائے کو مدنظر رکھا گیا۔
سرچ فار جسٹس کے سربراہ افتخار مبارک نے کہا کہ اقوام متحدہ کے چائلڈ رائٹس کنونشن کے آرٹیکل 12 کے تحت ہر بچے کو حق حاصل ہے کہ وہ ان امور میں اپنی رائے دے جو اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ملک کے تمام صوبوں میں بچوں کے تحفظ کے اداروں میں بچوں کی نمائندگی نہ ہونے کے باوجود ماہرین موجود ہیں، جس کی وجہ سے بچوں کی اصل مشکلات اور مسائل سامنے نہیں آتے۔
ماہرین زور دیتے ہیں کہ بچوں کی حقیقی شمولیت کے بغیر کوئی پائیدار اور مؤثر پالیسی ممکن نہیں۔ بچوں کی آواز کو شامل کرنا ہی بچوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے۔