یہ سچ ہے کہ "نظامِ تعلیم کی تباہی دراصل قوم کی تباہی ہوتی ہے”۔ علامہ اقبال نے خوب فرمایا تھا ( اُس قوم کی پیشانی پہ لکھی ہے تباہی. جس قوم کے مکتب کی فضا ٹھیک نہ ہو ) . اُس قوم کا جینا حرام ہے جو پڑھنے کو اچھی کتاب نہ لکھ سکے اور لکھی ہوئی کتابوں سے استعفادہ حاصل نہ کر سکے. وہ قوم فناہ ہو جاتی ہے جو کتابوں سے دُور اور دنیا کی رنگینی میں غرق ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ قوم ہمیشہ مکتب خانوں اور درس گاہوں میں ہی پروان چڑھتی ہے اور اگر تباہ ہوتی ہے تو وہی پہ تباہ ہوتی ہے۔
کسی قوم کو تباہ کرنے کے لیے ایٹم بم اور میزائل کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کا نظام تعلیم گرا دو اور طلباء کو امتحان میں نقل لگانے کی اجازت دے دو، وہ قوم خود تباہ ہو جائے گی۔ اس ناکارہ نظام تعلیم سے پڑھ لکھ کر نکلنے والے ججز کے ہاتھوں انصاف کا قتل ہو جائے گا، ڈاکٹرز کے ہاتھوں مریض مرتے رہیں گے۔ انجینئرز کے ہاتھوں عمارات تباہ ہو جائیں گی، معیشت دانوں کے ہاتھوں دولت ضائع ہو جائے گی، مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں انسانیت تباہ ہو جائے گی، صحافیوں کے ہاتھوں سچ دفن ہو کر گمراہی پھیل جائے گی، تاجروں کے ہاتھوں خالص پائیدار مضبوط اشیاء کا خاتمہ ہو کر ناقص اشیاء کی پیداوار بڑھ جائے گی۔ قدرتی و خالص سبزی و فروٹ اور کھانوں کی جگہ آرگینک ادویات زدہ بیماریوں سے بھرے کھانے ملیں گے۔ اس طرح سب کی مشترکہ غلفت اور کوتاہیوں سے ملک و معاشرہ اخلاقی طور پر گِر کر تباہ ہو جائے گا۔
جس مُلک کو تباہ کرنا ہو اُس کے اداروں میں 5 خطرناک ہتھیاروں کا غلط استعمال پھیلا دو وہ مُلک خود بخود تباہ ہو جائے گا۔ وہ خطرناک ہتھیار ( قانون، دولت، طاقت، پیسہ، قلم ) ہیں جن کے غلط استعمال سے مُلک تباہ ہو جاتے ہیں، اداروں تباہ ہو جاتے ہیں، قوموں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ قومیں ویران ہو جاتی ہیں، قومیں پاش پاش ہو کر اپنی ہستی سے مِٹ جاتی ہیں اور دوسری اقوام کی غلام بن کر جینے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ جس کی ایک تازہ مثال پاکستان میں 9 اپریل 2022 رات 12 بجے (رجیم چینج آپریشن) ہے۔
یہ سب دولت و پیسے کی لالچ کی دوڑ میں کیا جاتا ہے۔ اِس طرح ہی ملکوں کا نظام تباہ ہوتا ہے اور عوام کا نظام زندگی مفلوج ہو جاتا ہے جب عوام مفلوج ہو جائے تو پیچھے کچھ نہیں بچتا کیونکہ جب عوام مفلوج ہو گی تو اسکا اثر ملک کی معیشت پر پڑے گا۔ معیشت کمزور ہو گی تو صاف بات ہے ملک تباہ حال اور خستہ حالی کا شکار ہو جائے گا۔
جنگ عظیم دوم میں جرمنی نے جب برطانیہ پر حملہ کیا تو برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے کہا کہ اگر ہماری عدالتیں صحیح فیصلہ کر رہی ہیں تو ہم جنگ ہار نہیں سکتے لہذا اگر ہر ملک کا عدالتی نظام مضبوط ہے اور وہ انصاف پر مبنی فیصلے کرتا ہے تو قومیں اس سے ترقی پاتی ہیں اور ان کی عوام بھی خوشحال رہتی ہے۔
لیکن ہمارے ملک میں تو سب کچھ ہی الٹ ہو رہا ہے۔ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ کو ہر قسم کی کرپشن نظر آئے گی۔ یہ قوم اور معاشرہ آج ایسا ہو چکا ہے کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی اور نہ ہی چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ خون سفید ہو چکا۔ حکمران اپنی کرپشن میں مصروف ہیں یا پھر اقتدار کے نشے میں مست ہیں۔ اس معاشرہ میں گونگے، بہرے، بصیرت سے عاری اندھوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی ادارہ بھی حق کا ساتھ نہیں دیتا اور ضرورت پڑنے پر سچی گواہی دینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
ہماری ریاست کے اہم ادارے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ بھنگ پی کر سوئے پڑے ہیں۔ یہ اہم ادارے کسی بھی ملک کے لیے اہم ستون اور اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جب ایسی نوبت آ جائے تو تباہی ایسی قوم کا مقدر ہوتی ہے۔ پچھلے 30 ، 40 برس سے ایسا ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ جب کِسی قوم کو مایوسی گھیر لے، نوجوان طبقہ ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہو جائے، تو اِس سے بڑی ذِلت اور بُری شکست دُنیا میں اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ریاست کے چار ستون ( پارلیمنٹ،عدلیہ، انتظامیہ،صحافت ) میں سے چوتھا ستون "صحافت” ہوتا ہے۔
لیکن ایک سال سے پاکستان میں جہاں تین ستون خاموش ہیں وہاں صحافت پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ ارشد شریف قتل ہو گیا، دیگر صحافیوں کو ملک بدر کر دیا اور حتی کہ میڈیا پر سابق وزیراعظم عمران خان کا نام لینے پر بھی پابندی ہے۔ افسوس کہ ہم کدھر جا رپے۔ کیوں اس طرح کر رہے؟ کیوں اپنا معاشرہ خود اپنے ہاتھوں تباہ کر رہے۔ اب ایسے حالات میں عوام کا فوج سے بھی یقین اٹھ چکا۔ کیونکہ فوجی افسران عوام کو پکڑ پکڑ کر انکی گندی ویڈیوز بناتے اور اینٹیں باندھتے ہیں ۔ تو ایسے میں عوام اداروں پر کیسے یقین کرے ؟ جب کسی مُلک کے ادارے کمزور ہو جائیں تو سمجھ لو وہ مُلک کھوکھلا ہو چکا ہے۔ مضبوط ادارے ہی مضبوط مُلک کی ضامن ہوتے ہیں۔
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ سلطنت روم دنیا کی بہت بڑی مضبوط سلطنت ہوا کرتی تھی۔ پوری دنیا میں اُس کا ڈنکا بجتا تھا لیکن جب اُس کا والی و وارث "مارکس اوریلئیس” کو اُس کے اپنے بیٹے "کموڈوس” نے اقتدار کے لالچ میں آ کر قتل کر کے خود روم سلطنت کی بادشاہت سنبھال لی تو اِس کے بعد رُوم تباہ ہو گیا۔ اِس کی وجہ کیا تھی؟ کیونکہ "کموڈوس” عیاش تھا۔ رعایا کی خبرگیری چھوڑ دی۔ سلطنت کی بنیادیں کمزور ہو گئیں۔ کموڈوس خود انسانوں کے قتل گاہ کے میلے منعقد کروا کر لطف اندوز ہوتا تھا۔ تاہم دوسری قوتوں نے دھاوا بول کر روم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور "کموڈوس” اپنا مُلک نہ بچا سکا۔
اِسی طرح ایران کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جہاں کی دولت و فوجی طاقت کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لیکن برسوں سے بداصولی و بداخلاقی کا کیڑا لگ چکا تھا جو اندر ہی اندر سے ایرانی معاشرے کو کھائے جا رہا تھا تو نتیجہ یہ ہوا کہ یزدگرد جیسا مستقل مزاج بادشاہ اور رستم جیسا تجربہ کار فوجی جنرل بھی اپنے مُلک کو نہ بچا سکا تو عربوں نے دونوں مشرقی و مغربی شہنشاہیوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔
بغداد کی عباسی خلافت کا دنیا میں رعب تھا۔ خوارزم شاہ کی سلطنت اپنے زمانے کی روئے زمین کی سب سے بڑی سلطنت تھی۔ لیکن مسلمانوں کی سوسائٹی روح سے خالی اور اخلاقی کمزوریوں سے داغدار ہو چکی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تاتاریوں کا سیلاب کسی نے روکے نہ رک سکا۔ سینکڑوں برس کا تمدن اور علم و تہذیب کا ذخیرہ تاتاریوں کے ہاتھوں خاک میں مِل گیا۔
مختصر یہ کہ مثالیں تو بہت ہیں دینے کو لیکن کیا ہم کسی بھی ایک واقعہ سے سبق سیکھ کر خود کو تبدیل کر سکتے ہیں یا پھر ازل سے کرپٹ حکمرانوں کے تلوے چاٹ کر ذلیل ہونا ہی پسند کریں گے؟ ہمارے ارباب اختیار کو بھی سوچنا ہو گا ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا مستقبل چھوڑ کر جا رہے؟ اگر حالات کو ایسا ہی رکھا اور عوام کو اور بھی کمزور سے کمزور اور بدتر حالات زندگی کی نہج تک پہنچا دیا تو آنے والی نسلیں کسی کو معاف نہیں کریں گی ہم سب کو اِس بارے سوچنا ہو گا۔