تحریر : کاشف جاوید
یہ جو پاکستان ہے ناں یہاں سب چلتا ہے سب سوائے خوشحالی روزگار اور سکون کے ہمارے ہاں مہنگائی ایسے بڑھ رہی ہے جیسے فیس بک پر فلسفی لوگ کھانے کو ترس رہے ہیں اور بڑے برانڈز پر سیل لگ رہی ہے دکانوں میں رش لگا ہے جیسے کپڑے مفت میں بانٹے جا رہے ہوں اور وہ جو اصلی غریب ہیں وہ اپنی بوسیدہ قمیص میں اس رش کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں جیسے کوئی بچہ کھلونے کی دکان کے شیشے کے پار کھڑا ہو
ہمارے ملک میں سب کچھ ہے بس انصاف روزگار تعلیم اور تحفظ نہیں آپ کو اچھی نوکری نہیں ملے گی اچھا مستقبل نہیں ملے گا اچھا ویزا نہیں ملے گا لیکن اگر آپ کو مسنگ ہونا ہو تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں یہ سہولت ہر وقت دستیاب ہے اور اس پر کوئی سوال بھی نہیں اٹھا سکتا آپ کے پیارے اگر گم ہوں تو صبر کیجئے انتظار کیجئے اور اگر پھر بھی کوئی پتہ نہ چلے تو اپنے دل کو تسلی دیجئے کہ وہ ملک و ملت کی خدمت میں کہیں مصروف ہوں گے
ادھر عالمی منظرنامہ دیکھیں تو ہر طرف دھماکے ہو رہے ہیں کبھی اسرائیل بمباری کر رہا ہے کبھی روس یوکرین میں راکٹ برسا رہا ہے کبھی امریکہ اور چین کی نظریں تلواریں بنی ہوئی ہیں جنگیں ایسے ہو رہی ہیں جیسے محلے میں کرکٹ کا میچ اور ہم جو ایک طرف اپنے مسائل میں گُھٹے جا رہے ہیں ان جنگوں کے بیچ میں ایسے کھڑے ہیں جیسے کسی اور کی شادی میں بے تکلف مہمان
تعلیم کا حال یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں طالب علم کم اور یوٹیوبرز زیادہ نظر آ رہے ہیں کسی کو ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی فکر نہیں سب کو انفلوئنسر بننے کا شوق ہے کوئی ایکسپوز کر رہا ہے کوئی ریویو دے رہا ہے کوئی تنقید کر رہا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جتنے زیادہ لوگ کچھ نہیں کر رہے اتنا زیادہ وہ مشہور ہو رہے ہیں ویزے کی کہانی بھی دلچسپ ہے پاکستانی پاسپورٹ لے کر باہر نکلنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی پچھلے جنم کے گناہوں کی معافی مانگنے نکلا ہو دنیا ہمیں ایسے دیکھتی ہے جیسے ہم کسی اور سیارے سے آئے ہوں امیر ممالک ویزا دینے کے نام پر یوں شرما رہے ہیں جیسے کوئی کنواری دوشیزہ رشتہ دیکھنے آئے لڑکے سے نظریں چرا رہی ہو
اب الفاظ بھی روٹھ گئے ہیں ایک وقت تھا کہ وہ طنز و مزاح میں حالات کی چٹنی بنا کر پیش کرتے تھے اب چٹنی میں ذائقہ کم اور کڑواہٹ زیادہ آ چکی ہے پہلے ہمارے لکھاری جو لکھتے تھے تو قاری ہنستے تھے اب وہ خود بھی پڑھیں تو آنسو ضبط کرنے پڑتے ہیں کیونکہ لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن تبدیلی کا امکان ندارد ہے خیر وطن عزیز میں سب چل رہا ہے اور سب چلتا رہے گا بس عوام نہ چلے انہیں بس گزارا کرنا ہے امیدیں لگانی ہیں اور خواب دیکھنے ہیں اور اگر خواب بہت زیادہ دیکھ لیے تو وہ بھی ضبط کیے جا سکتے ہیں۔
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔