تحریر:- عزیز خان ایڈوکیٹ لاہور
ملک میں چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور عوام کی جیبوں پر وہ ڈاکہ مارا گیا ہے کہ ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ ڈاکہ زنی شوگر مل مالکان نے عدالت عالیہ لاہور کی طرف سے ملوں کے حق میں جاری کردہ سٹے آرڈر کے بعد کی ہے اور اندازہ ہے کہ اب تک صرف پنجاب میں پچاس ارب روپئے کی ناجائز منافع خوری بلکہ لوٹ مار کر چکے ہیں۔
اس ڈاکہ زنی کی تفصیل یہ ہے کی شوگر ملز نے مارچ میں کرشنگ مکمل کر لی اور تمام اخراجات کے مد نظر اپریل کے مہینے میں 95 روپئے فی کلو کا ریٹ نکالا اور مارکیٹ میں چینی تقریبا 100 روپئے کلو فروخت ہوتی رہی۔ یاد رہے کہ اس میں ملز کا کافی منافع بھی شامل تھا۔
پھر یوں ہوا کہ وفاقی حکومت نے اپریل میں اڑھائی لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ شوگر مل مافیا نے اسی پر صبر نہیں کیا بلکہ افغانستان کو چینی کی اسمگلنگ شروع کروادی۔ باخبر ذرائع کے مطابق اب تک تقریبا سات لاکھ میٹرک ٹن چینی افغانستان کو سمگل کی جا چکی ہے۔ سمگلنگ اور ایکسورٹ کے ذریعے ملک میں چینی کی قلت پیدا کرکے مافیا نے اس کا ریٹ بڑھانا شروع کر دیا۔
جب چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا دیکھا گیا تو وفاقی وزارت خوراک نے اپریل کے آخری ہفتے میں چینی کی خوردہ قیمت تمام پیداوری لاگت کو مد نظر رکھتے ہوئے تقریبا 100 روپئے مقرر کی۔ تاہم شوگر ملز نے عدالت عالیہ میں رٹ نمبری 28772/2023 بعنوان آدم شوگر مل وغیرہ بنام فیڈریشن آف پاکستان دائر کی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے 4.5.2023 کو چینی کی قیمت کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیا اور اب اس کی تاریخ 20.9.2023 ہے۔ اس کے بعد تو جیسے چینی کی قیمتوں کو پر لگ گئے۔
عوام کی مشکلات کے پیش نظر پنجاب حکومت نے چینی کی قیمت دوبارہ مقرر کرنے کا پراسس شروع کیا تو عدالت عالیہ لاہور کے جج انوار حسین نے یکم اگست کو اس پر بھی سٹے آرڈر جاری کر دیا اور اگلی تاریخ 5.9.2023 ڈال دی۔ ان عدالتی احکامات کے بعد شوگر ملز نے چینی کی خوردہ قیمت 100 روپئے سے بڑھا کر 170 روپئے کلو کر دی ہے۔
پہلے حکم امتناعی مؤرخہ 4.5.2023 سے لے کر اب تک صرف پنجاب کی ملوں سے تقریبا پندرہ لاکھ میٹرک ٹن چینی اٹھائی جا چکی ہے جس پر فی کلو اوسطا 40 روپئے کی لوٹ مار کی گئی ہے۔
اگر پندرہ لاک میٹرک ٹن کا حساب لگایا جائے تو اس ڈاکے کی مالیت 60 ارب روپئے بنتی ہے جو کہ شوگر مافیا نے عدالتی احکامات کے بعد کی ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ مل مالکان کون ہیں۔ تو ملاحظہ فرمائیں
مبینہ طور پر شہباز شریف، جہانگیر ترین، ہمایوں اختر اور ہارون اختر، خسرو بختیار، ذکااشرف، الطاف سلیم، چوہدری وحید، شمیم خان، میاں رشید وغیرہ۔
شامل ہیں جنہوں نے عوام کو اتنی بے دردی سےلوٹا ہے کہ الاماں۔
ہم چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ ہے وہ معاملہ جس کا ازخود نوٹس ضرور بنتا ہے۔