تحریر : کاشف جاوید
بھائی، یہاں پر ہر کوئی دانشور بنا ہوا ہے، اپنا اپنا بیانیہ پیش کر رہا ہے۔ کوئی پنجابی اپنا دکھ پیٹ رہا ہے، کوئی بلوچی اپنی محرومی کا ذکر کر رہا ہے، کوئی پٹھان اپنی جدوجہد بیان کر رہا ہے، اور کوئی سندھی اپنی شناخت کی بات کر رہا ہے۔ کوئی سنی خوفزدہ ہے، کوئی شیعہ عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اگر ہر گروہ اپنی محرومی کا رونا روئے اور اسے بنیاد بنا کر علیحدگی کا نعرہ بلند کرے تو پھر ہر 20-25 کلومیٹر کے بعد ایک نیا ملک وجود میں آ جائے گا۔ لیکن دنیا ایسے نہیں چلتی۔
یہ جو پاکستان ہے ناں، یہ ایک عجیب و غریب چوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف چین کی گرمجوشی، دوسری طرف امریکہ کی غصیلی آنکھیں۔ سعودی عرب بھی اپنے آپ کو ماڈرنائز کرنے میں لگا ہے، یعنی اب تلواروں کی جگہ روبوٹس لے رہے ہیں، اور ہم؟ ہم وہیں کھڑے سوچ رہے ہیں کہ کعبہ ہمارے پیچھے ہے یا کلیسا ہمارے آگے۔
دیکھئے، وفاق اور صوبے اس وقت ایک دوسرے سے نظریں چراتے پھر رہے ہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند سرگرم، خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کا سایہ، سندھ میں قوم پرستی کی بازگشت اور پنجاب اپنی روایتی سیاست میں مگن۔ ہر کوئی اپنی دھن میں مست، جیسے یہ ملک کوئی سرکاری ٹی وی کا پرانا ڈرامہ ہو، جس کے کردار ایک ہی اسکرپٹ کو دہرا رہے ہوں۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایسے حالات صرف پاکستان میں نہیں، دنیا کے کئی ممالک میں پیدا ہو چکے ہیں۔ 1861 میں امریکہ میں جنوبی ریاستوں نے علیحدگی کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں خانہ جنگی چھڑ گئی۔ لیکن اس کا حل طاقت کے استعمال سے نہیں، بلکہ معیشت اور سیاسی اصلاحات سے نکالا گیا۔ 1990 کی دہائی میں یوگوسلاویہ کا انتشار بھی اسی طرح کے نسلی اور معاشی تنازعات کا نتیجہ تھا۔ ریاست نے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے سخت گیر پالیسی اپنائی، جس نے ملک کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ اس کے برعکس، کینیڈا میں کیوبک کی علیحدگی پسندی کو مذاکرات، ریفرنڈم اور معیشت کی بہتری سے کمزور کیا گیا۔
بلوچ لبریشن آرمی، سندھو دیش لبریشن آرمی، پشتون تحفظ موومنٹ اور دیگر قوم پرست تنظیمیں اُس خلا کی پیداوار ہیں جو ریاست نے خود پیدا کی ہے۔ جہاں محرومی ہو، وہاں مزاحمت جنم لیتی ہے۔ جہاں ناانصافی ہو، وہاں بغاوت کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ ٹرین پر حملے ہوں یا کسی ہوٹل پر بم دھماکہ، دشمن تو اپنا کام کر رہا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟
یہ سب تنظیمیں دراصل پاکستان کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی عدم توازن کا نتیجہ ہیں۔ جہاں وسائل چند ہاتھوں میں سمٹ جائیں، جہاں ترقی کے فوائد مخصوص علاقوں تک محدود رہیں، وہاں بدامنی خودبخود پیدا ہوتی ہے۔ ریاست کا کام صرف طاقت کا استعمال نہیں بلکہ عوام کے دل جیتنا بھی ہوتا ہے۔ بندوق سے وقتی خاموشی تو حاصل کی جا سکتی ہے، مگر مستقل امن نہیں۔
معیشت کا استحکام ہر سیاسی مسئلے کا بنیادی حل ہوتا ہے۔ آدم اسمتھ نے اپنی مشہور کتاب ویلتھ آف نیشنز میں واضح کیا تھا کہ جب معیشت ترقی کرتی ہے، تو ریاستیں زیادہ مستحکم ہوتی ہیں۔ پاکستان کو بھی اسی اصول پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر معیشت ترقی کرے گی، عوام کو روزگار ملے گا، اور ریاست عوام کے مسائل حل کرے گی تو علیحدگی پسندی کی جڑیں خودبخود کمزور پڑ جائیں گی۔
پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر بھی نظرثانی کرنی ہوگی۔ ہمیں دوسروں کے مفادات کی جنگ کا مہرہ بننے کے بجائے اپنے قومی مفاد کو مقدم رکھنا ہوگا۔ چین اور امریکہ کے درمیان توازن برقرار رکھنا ضروری ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ کر لیا جائے۔
اصل طاقت عوام میں ہے، اگر انہیں روزگار، انصاف اور مواقع دیے جائیں تو کوئی انہیں ریاست کے خلاف ورغلانے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ معاشی ترقی کے بغیر استحکام ممکن نہیں۔ نوجوانوں کو نوکریاں ملیں، کاروبار کے مواقع پیدا ہوں، اور مقامی حکومتیں مضبوط ہوں تاکہ مسائل کا حل عوام کے دروازے پر ہی نکل آئے۔
پاکستان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ طاقت کے زور پر چلے گا یا انصاف اور ترقی کے اصولوں پر۔ اگر محرومیوں کو ختم کر دیا جائے، وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو، اور عوام کو ریاست کا حصہ سمجھا جائے تو یہ مسائل خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ ناانصافی کبھی خاموش نہیں رہتی۔
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔