کراچی (کامرس رپورٹر)وفاقی وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے طویل مدتی استحکام کو قلیل مدتی ریلیف پر ترجیح دی جاتی ہے، ٹیکس نیٹ میں اضافہ سے ٹیکس کی کمی کو پورا کرنے کی توقع ہے۔
کراچی میں فنانشل مارکیٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے زیر اہتمام تقریب میں بطور مہمان خصوصی اکنامک اینڈ ڈیبٹ آﺅٹ لک 2025کے موضوع پر منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کے دوران کیا۔انہوں نے وزارت خزانہ اور خاص طور پر ڈیبٹ مینجمنٹ آفس کی طرف سے ملکی مالیات اور معیشت کو مستحکم اور مضبوط بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کیا۔
خرم شہزاد نے ایکشن پلان پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم مالیاتی عدم توازن کو سنبھالنے اور طویل مدتی پائیداری کے لیے مالیات کو بہتر بنانے کے لیے تمام تر کوششیں کر رہے ہیں۔انہوں نے عوامی مالیات کو بہتر بنانے کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی کوششوں کے تحت ریونیو کو متحرک کرنے اور اخراجات کو معقول بنانے کے اختیار کیے گئے نقطہ نظر کی بھی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے حال ہی میں ڈھائی دہائیوں میں اپنا پہلا بجٹ سرپلس حاصل کیا ہے اور بنیادی سرپلس پورے سال کے ہدف سے تقریبا دوگنا ہے جبکہ قرض-جی ڈی پی کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ سے ٹیکس کی کمی کو پورا کرنے کی توقع ہے۔ خرم شہزاد نے مزید کہا کہ ہم قلیل مدتی اور قلیل المدت فوری امدادی اقدامات پر طویل المدتی پائیداری کو ترجیح دے رہے ہیں۔
انہوں نے مقامی مارکیٹ سے اضافی ڈالر کی لیکویڈیٹی جذب کرکے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے پر اسٹیٹ بینک کی تعریف کی۔ مشیر نے پانڈا بانڈ اور گرین بانڈ کے جاری منصوبوں کا بھی ذکر کیا جبکہ اسٹیٹ بینک ریٹیلرز اور کارپوریٹس دونوں کے لیے حکومت کو براہ راست قرض دینے کے لیے ایک سرمایہ کاری پلیٹ فارم بھی شروع کرے گا۔جس سے حکومت کو لاگت کم کرتے ہوئے اپنے قرضوں کو متنوع بنانے میں مدد ملے گی۔انہوں نے بجٹ کے اخراجات میں کمی کے لیے رائٹ سائزنگ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ خرم شہزاد نے کہا کہ 43 وفاقی وزارتیں اور 400 سے زائد محکمے ہیں جنہیں کم کرنے اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
تعلیم، صحت، آئی ٹی، کامرس اور بہت سی وزارتوں میں سے زیادہ تر پہلے ہی صوبوں کے حوالے کر دی گئی ہیں، لہذا انہیں وفاقی حکومت سے ختم کر دیا جائے گا جس کے ذریعے حکومت 870 ارب روپے کے اخراجات میں کمی کر سکے گی۔قومی خزانہ کے استحکام کیلئے قابل ذکر اصلاحات پنشن کے حوالے سے کی جا رہی ہیں اور بہت سے اخراجات ختم کر کے قومی خزانے کے ضیاع کو روک دیا گیا ہے۔ تیسرا کلیدی شعبہ حکومتی شعبہ کے کاروباری ادارے ہیں ، تجارتی اداروں کو یا تو بند کر دیا جائے گا یا نجکاری کے لیے رکھا جائے گا۔
توانائی ایک اور اہم شعبہ ہے جہاں متعلقہ وزارت نے پہلے ہی مالیاتی بوجھ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ توانائی کی لاگت کو کم کرنے، ترقی اور سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنے کے لیے آئی پی پیز کے معاہدے کی تنظیم نو کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں ۔وزیر خزانہ کے مشیر نے مزید کہا کہ متعدد اداروں کی نجکاری اور ڈی ریگولیشن بھی زیر غور ہے جن میں پی آئی اے، ہاس بلڈنگ اینڈ فنانس کارپوریشن، ڈسکوز، سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن، فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ اور زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی ٹیکس کے لیے صوبوں کے ساتھ قومی مالیاتی معاہدہ جاری ہے جس کے آنے والے مہینوں میں مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ماضی کے برعکس برآمدات کی قیادت میں ترقی کے لیے پرعزم ہیں جہاں ہمیں درآمدات کی قیادت میں مختصر مدت کی ترقی کی وجہ سے تیزی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں اڑان پاکستان کے 3 اہم محور ہیں ۔جس کے تحت برآمدات کی قیادت میں پائیدار ترقی اور نجی شعبے کو بنیادی طور پر آپٹمائزڈ عوامی مالیات کے ذریعے اس کی قیادت کرنی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بہت سے امیر نان فائلر شہری طویل عرصے سے نظام سے باہر رہنے کے لیے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کا انتخاب کرکے ریلیف حاصل کر رہے ہیں۔ مستقبل قریب میں نان فائلرز کے لیے کوئی کیٹیگری نہیں ہوگی، ہر ایک کو اپنا واجب الادا ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور ریٹرن فائل کرنا ہوں گے۔اس سلسلے میں ریٹرن فائل کرنے کے عمل کو بھی آسان بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تقریبا 190,000 لوگ ہیں جن کے ٹیکس واجبات 1.6 ٹریلین روپے ہیں، ہمیں خاص طور پر ان پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔
انہوں نے ٹیکس قوانین (ترمیمی) بل 2024 پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ ٹیکس جمع کرانے کے قوانین کی تعمیل کو بڑھایا جائے گا اور نان فائلرز کے لیے معاشی سرگرمیوں کو محدود کیا جا سکے گا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ملک کو دو وجودی خطرات کا سامنا ہے۔ آب و ہوا اور آبادی کے مسائل نمٹنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں ورلڈ بینک گروپ کے ساتھ حالیہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک جو آئندہ 10 سالوں میں اہم سماجی شعبے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے 20 بلین ڈالر فراہم کرے گا، اس کے ساتھ ساتھ آئی ایف سی کی نجی سرمایہ کاری میں 20 بلین ڈالر شامل کرنے کی رضامندی ایک اہم پیشرفت ہے ۔
پوری فیڈریشن اور صوبوں کو طویل مدتی جامع اور پائیدار ترقی اور خوشحالی کے لیے عوام کی زندگی اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔تقریب سے وزارت خزانہ کے ڈائریکٹر ڈیبٹ مینجمنٹ آفس ایراج ہاشمی نے بھی ایک پریزنٹیشن دی کہ کس طرح پاکستان کے قرضوں کی پائیداری بہتر ہو رہی ہے اور قرض-جی ڈی پی کا تناسب کم ہو رہا ہے۔کنسلٹنٹ ڈیبٹ، ڈی ایم او خلیق الزماں نے تکنیکی نقطہ نظر کا اشتراک کیا اور کہا کہ کس طرح ڈی ایم او تجارتی اور شریعت کے مطابق قرضوں کی طویل مدتی دستیابی کے لیے حکمت عملی بنا رہا ہے اور اس پر عمل درآمد کر رہا ہے۔