لگتا یہ ہے کہ معاشرے میں جو بے ڈھنگا پن آتا جا رہا ہے، معاشرے میں تہذیب ختم ہوتی جارہی ہے اور شوخ مزاجی، چنچل پن، شرارت عام ہورہی ہے، یہ معاشرتی تبدیلی نہ صرف پاکستان میں آرہی ہے بلکہ پوری دنیا کے اندر اس کا کچھ نہ کچھ اثر ہو رہا ہے۔
چنچل مزاجی، شوخی اور شرارت کا جہاں تک تعلق ہے، انسانی مزاج کی ادائیں خوبصورت اور اچھی بھی ہیں، لیکن ایسی بھی کیا شوخی اور شرارت کہ انسانی شخصیت بگاڑ اور بے ڈھنگے پن کا شکار کردے۔ اور شخصیت بلا وجہ تنقید اور تذلیل کا نشان بن جائے۔ اگر مجھ سے اس کی وجہ پوچھی جائے تو میں یہ کہوں گا کہ معاشروں کا یہ بگاڑ کیمرے کی پیداوار ہے۔
ہمارے ایک بزرگ کہتے ہیں کہ پہلے لقوہ ایک جسمانی بیماری تھی اور اب ایک روحانی بیماری کا روپ دھار چکا ہے۔ اب جب تک منہ کو زاویہ نہ دیا جائے تو سیلفی مکمل ہی نہیں ہوتی۔ اگر کچھ لڑکیاں اپنے چہرے کو، اس خوف سے کہ پہچان میں نہ آ جائیں، چہرہ چھپاتی ہیں تو وہ اپنے دھڑ کی تصویر سوشل میڈیا پر آویزاں کردیتی ہیں۔ اور آج کل تو چہرے کے بجائے ناگن جیسے بال تصویروں میں نظر آتے ہیں۔
کیمرا اور سوشل میڈیا شہرت کو اتنا سستا کردے گا، یہ سوشل میڈیا اور کیمرے کی تخلیق کرنے والوں نے بھی شاید نہ سوچا ہو۔ اور شہرت کی خواہش میں معاشرے میں اس قدر بگاڑ پیدا ہوجائے گا، یہ مہذب دنیا نے کبھی نہیں سوچا ہو گا۔
کہتے ہیں کہ دریا، وقت اور معاشرتی تبدیلیاں پیچھے کی طرف نہیں چلتے۔ میرے جیسے تنقید نگاروں اور نکتہ چینوں کے پاس اس کو قبول کرنے کے علاوہ کچھ چارہ بھی نہیں ہوتا۔ علم اور تعلیم اتنی ترقی کرچکے ہیں کہ ہر شخص کے پاس معلومات کا خزانہ ہے۔ اور انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات تک پہنچ ضرور ہے۔ یہ علمی اور سائنسی ترقی اس نہج تک جا پہنچے گی یہ شاید کسی نے نہ سوچا تھا، لیکن آج معاشرتی سطح پر علم کی نہیں شاید تربیت کی ضرورت زیادہ ہے۔ یہ علم جو مذاہب نے دیے ان کو روحانی سطح پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دریا الٹے رخ نہیں بہتے، معاشرتی تبدیلی بھی نہیں روکی جاسکتی۔ اس تبدیلی کی اخیر کیا ہو گی یہ پیش گوئی تو نہیں کی جاسکتی لیکن انسانیت اور انسانی کردار وتشخص کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔
ہمارے معاشروں کو سادگی پر عمل پیرا ہونے اور مشینوں کے بجائے انسانوں کو ایک دوسروں کے قریب لانے کی ضرورت ہے۔