تحریر : ہراکلیٹس ہراک
میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمیں کیا ہو گیا ہے۔ ہمیں کالجز اور یونیورسٹیز میں کیا پڑھایا جا رہا ہے؟ یہ کوئی تحقیق ہے یا پھر رٹے رٹائے جملے، جنہیں یاد کر کے بس نوکری کی جائے؟ کہیں بھی تنقیدی سوچ کا کوئی عمل دخل نہیں۔ علم محض معلومات کا انبار بنتا جا رہا ہے، جس کا مقصد سچائی کی تلاش نہیں بلکہ پہلے سے موجود نظریات کی تائید کرنا ہے۔ کسی بھی چیز پر سوال اٹھانے کا رواج ختم ہو چکا ہے، کیونکہ سوال کرنے والا یا تو گستاخ کہلاتا ہے یا باغی۔ اگر کسی نے کہہ دیا کہ نہار منہ پانی پینے سے صحت اچھی ہوتی ہے، تو فوراً ایسی ہی "تحقیقات” ڈھونڈی جائیں گی جو اس بات کی تصدیق کریں۔ اور اگر کوئی پوچھ بیٹھے کہ کیا کوئی تحقیق اس کے خلاف بھی ہے، تو جواب ملے گا، "تمہیں مغربی ایجنڈے کی بو نہیں آتی؟”
یہ مسئلہ صرف صحت یا گھریلو ٹوٹکوں تک محدود نہیں بلکہ ہماری اجتماعی سوچ کا بنیادی مسئلہ ہے۔ ہم ہر چیز کو ایسے مانتے ہیں جیسے یہ آسمان سے لکھی لکھی نازل ہوئی ہو۔ ہمیں کبھی شک نہیں ہوتا کہ شاید جو بات ہم نے بچپن سے سنی ہے، وہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ اور اگر کسی دن شک کی کوئی چنگاری جاگ بھی جائے، تو ہم وہی کرتے ہیں جو وکیل عدالت میں کرتا ہے، اپنے مؤقف کے حق میں دلائل تلاش کرو، مخالف کے دلائل چاہے آئن سٹائن ہی کیوں نہ دے رہا ہو، انہیں "متعصب”، "غیر اسلامی”، "مغربی پروپیگنڈا” یا کم از کم "بکواس” قرار دینا ہمارا فرض ہے۔ تھیوڈور ایڈورنو نے کہا تھا، "لوگ تحقیق نہیں کرتے، بس اپنے نظریات کا دفاع کرتے ہیں۔” یہی ہو رہا ہے۔ ہم تحقیق اس لیے نہیں کرتے کہ حقیقت تک پہنچیں بلکہ اس لیے کہ اپنی پسندیدہ رائے کے لیے دلائل اکٹھے کریں۔ اگر کوئی سوچ ذرا مختلف ہو تو اسے مسترد کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ کسی مقدس نظریے سے ٹکرا جائے تو تحقیق کرنے والے پر ہی سوال اٹھا دیا جاتا ہے۔
کارل پوپر کے مطابق، "کسی بھی نظریے کو تب تک درست نہیں ماننا چاہیے جب تک اسے غلط ثابت کرنے کی پوری کوشش نہ کر لی جائے۔” مگر یہاں ہر وہ چیز غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو پہلے سے بنائے گئے خیالات کے خلاف ہو، جبکہ اپنی سچائیاں مقدس سمجھی جاتی ہیں۔ نطشے نے کہا تھا، "سچائی وہم ہے، جب تک کہ اسے جھٹلایا نہ جا سکے۔” مگر ہمارے ہاں سچائی کو وہم سمجھنے کا کوئی تصور نہیں کیونکہ یہاں سوال کرنا بغاوت ہے۔ ہمیں صرف وہی تحقیق پسند آتی ہے جو ہمارے نظریات کی تصدیق کرے، وہی کتابیں عزیز ہیں جو ہمارے خیالات کی توثیق کریں، اور وہی لوگ معتبر لگتے ہیں جو ہماری بات سے اتفاق کریں۔
یار، پھر نتیجہ تو یہی نکلے گا نا، میرے دوستو؟ اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، بس اپنا قبلہ درست کریں۔ تحقیق وکالت نہیں، بلکہ سچائی کی تلاش کا نام ہے۔ سوال کرنا جرم نہیں، بلکہ علم کی بنیاد ہے۔ اگر ہم نے یہ نہ سمجھا، تو پھر نتیجہ یہی نکلے گا کہ ہم ایک بند گلی میں کھڑے ہوں گے، جہاں سے نہ آگے راستہ ہو گا نہ پیچھے۔
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔