سوات کے مختلف علاقوں میں شدید بارشوں کے بعد دریائے سوات میں طغیانی سے کم از کم 18 افراد سیلابی پانی میں بہہ گئے۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ ان میں سے آٹھ افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ باقی کی تلاش کیلئے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
ریسکیو 1122 خیبر پختونخوا کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق، سیلابی صورتحال نے متعدد علاقوں کو متاثر کیا ہے جہاں درجنوں افراد پھنس کر رہ گئے۔
صوبائی چیف سیکریٹری شہاب علی شاہ کے مطابق، 18 میں سے 8 افراد کی لاشیں مل چکی ہیں، جب کہ تین کو زندہ نکال لیا گیا ہے۔
ریسکیو مشن فوری طور پر شروع کر دیا گیا تھا اور اس وقت دریائے سوات کے ساتھ 8 مختلف مقامات پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
ریسکیو 1122 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بائی پاس روڈ کے قریب دریائے سوات کے کنارے مختلف مقامات پر پھنسے ہوئے 75 میں سے 58 افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
مزید بتایا گیا ہے کہ انگریوڑیرئی سے تین لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ غالیگے کے علاقے سے ایک لاش ملی ہے، جہاں سات افراد کے پھنسے ہونے کی اطلاع ہے اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
ریسکیو 1122 کے 120 اہلکار امدادی کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔
امام دھیرئی میں پانی میں پھنسے 22 سے زائد افراد کو ریسکیو اسٹیشن 33 کی ٹیم نے بحفاظت نکال لیا۔
منیار کے مقام پر سات افراد ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں جن کی مدد کیلئے ریسکیو اسٹیشنز 44 اور 55 مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔
پنجیگرام گاؤں میں ایک شخص پانی میں پھنسا ہوا ہے جہاں ریسکیو ٹیم مدد میں مصروف ہے۔
بڑا باماخیلا سے 20 سے 30 افراد کو بچا لیا گیا ہے۔
ریسکیو 1122 کی تمام ٹیمیں جائے وقوعہ پر موجود ہیں اور امدادی سرگرمیاں پوری شدت سے جاری ہیں۔
دوسری جانب، چارسدہ کے ڈپٹی کمشنر قیصر خان نے دریائے سوات میں ممکنہ مزید طغیانی کے پیش نظر الرٹ جاری کر دیا ہے اور متعلقہ عملے کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاری نوٹس میں کہا گیا ہے کہ "دریائے سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 77,782 کیوسک تک پہنچ چکا ہے، جو کہ انتہائی بلند سطح کا سیلاب قرار دیا گیا ہے۔”
ڈی سی خان نے کو بتایا کہ دریا کے کنارے دریائے کابل اور سوات پر ریسکیو ٹیمیں تعینات کر دی گئی ہیں، اور عوام کو مساجد کے لاوڈ اسپیکروں کے ذریعے خطرات سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا، "لوگوں کو محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونے کی ہدایات دی جا رہی ہیں، اور ہم مہمند کے منڈا ہیڈورکس پر بھی مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ تاحال دوپہر 3 بجے تک وہاں پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق تھا۔”