دنیا کی سب سے محفوظ سمجھی جانے والی ہوابازی کی صنعت ایک بار پھر سوالات کی زد میں ہے۔ 12 جون 2025 کو ایئر انڈیا کی پرواز 171، جو احمد آباد سے لندن جا رہی تھی، پرواز کے فوراً بعد حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس سانحے میں 242 مسافر اور زمین پر موجود 39 افراد جان سے گئے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر، عالمی ہوابازی کے بڑے ریگولیٹرز — جیسے EASA، FAA اور برطانیہ کا ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ — اس سنگین حادثے پر خاموش نظر آئے۔
اسی نوعیت کے ایک حادثے کا سامنا مئی 2020 میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA) کی پرواز 8303 کو ہوا، جس کے بعد بین الاقوامی ریگولیٹرز نے فوراً کارروائی کی، نہ صرف PIA پر یورپی فضاؤں میں پابندی عائد کی گئی بلکہ پاکستانی پائلٹس کے لائسنسز اور ایوی ایشن سسٹم پر بھی انگلیاں اٹھائی گئیں۔
لیکن ایئر انڈیا 171 کے حادثے میں، جب ابتدائی رپورٹس کے مطابق عملے نے پروٹوکولز کی خلاف ورزی کی، پرواز کی منصوبہ بندی کو نظرانداز کیا، اور ممکنہ انسانی غلطی سے حادثہ رونما ہوا، تب عالمی ریگولیٹرز نے کوئی فوری قدم نہیں اٹھایا۔ حتیٰ کہ بھارتی پائلٹس کی جعلی ڈگریوں، اندرونی میموز اور تھکن سے متعلق شکایات بھی خاموشی سے دبا دی گئیں۔
PIA پر سختیاں اس وقت کی گئیں جب پاکستان کے وزیر ہوابازی نے پائلٹس کے مشکوک لائسنسز کا ذکر کیا۔ اس کے بعد پاکستان کی قومی ایئرلائن نے نہ صرف سسٹم اپ گریڈ کیا بلکہ عالمی ریگولیٹرز کی رپورٹوں کے مطابق حفاظتی اقدامات کو بہتر بنایا۔ اس کے برعکس، بھارت کے DGCA پر وہسل بلوئرز کی شکایات کو نظرانداز کرنے اور شفاف آڈٹ نہ رکھنے کے الزامات سامنے آئے۔
اگر ایئر انڈیا 171 کا حادثہ یورپی یا امریکی سرزمین پر ہوتا، تو اس کا ردعمل شاید مختلف ہوتا۔ مگر چونکہ یہ سانحہ بھارت میں ہوا، عالمی ادارے خاموش رہے۔
یہ مضمون بھارت کے خلاف نہیں، بلکہ دہرا معیار اجاگر کرنے کے لیے ہے۔ بھارت نے ہوابازی کے میدان میں بہت ترقی کی ہے، مگر جب ایک بڑی ایئر لائن اتنی بڑی غفلت کی مرتکب ہو، تو اسے اسی پیمانے پر جانچا جانا چاہیے جس پر پی آئی اے کو پرکھا گیا تھا۔
پی آئی اے انتظامیہ کو یقین ہے کہ جلد ہی فرانس کی طرح یورپ کے دیگر ممالک بھی فضائی پابندیاں ختم کریں گے، اور پاکستان کی قومی ایئر لائن دوبارہ بین الاقوامی فضاؤں میں پرواز کرتی دکھائی دے گی۔