تحریر :کاشف جاوید
یوں تو ہمارے ہاں مہنگائی ہمیشہ آسمان سے باتیں کرتی رہی ہے، مگر رمضان آتے ہی یہ کسی راکٹ کی طرح مدار سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس موقع پر حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھے، اور مرہم بھی ایسا جو ٹی وی کیمروں کے سامنے لگایا جائے تاکہ دنیا دیکھے کہ حکمران رعایا کے دکھ درد میں شریک ہیں۔
ابھی تازہ تازہ خبر آئی ہے کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے "وزیراعظم رمضان پیکج 2025” کے لیے 20 ارب روپے مختص کر دیے ہیں اور اس کا اشتہار بھی تمام قومی اخبارات میں دے مارا ہے، جس میں فخریہ انداز میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں یہ رقم تین گنا زیادہ ہے۔ دوسری طرف، پنجاب کی وزیرِاعلیٰ مریم نواز شریف بھی پیچھے نہیں رہیں۔ انہوں نے پورے 30 ارب روپے کا "رمضان گفٹ” متعارف کروایا ہے، جس کے تحت ہر مستحق گھرانے کو 10 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس پیکج کے بینر پر بڑے بڑے الفاظ میں "خدمت”، "احساس” اور "ہمدردی” لکھا ہوگا، تاکہ جسے رقم ملے، وہ احسان کے بوجھ تلے دب جائے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ رقم عوام پر کوئی احسان ہے؟ بھائی، یہ تو وہی پیسہ ہے جو حکومت نے عوام ہی کی جیبوں سے نکلوایا ہے، اور اب تھوڑا سا واپس کر کے ان پر نیکی جتا رہی ہے! یعنی پہلے عوام سے ٹیکس کے نام پر وصولی کرو، پھر ان کی ہی رقم کو "تحفہ” بنا کر لوٹاؤ اور بدلے میں ان کی عزتِ نفس پر ایک اور زخم لگا دو۔ بھئی، اگر واقعی اتنی ہمدردی ہے تو یہی 50 ارب روپے (وزیرِاعلیٰ کا 30 ارب اور وزیراعظم کا 20 ارب) کسی ایسے منصوبے میں لگاؤ، جہاں سے غریب کو مستقل اور باعزت روزگار ملے، تاکہ اسے رمضان میں خیرات لینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ مگر نہیں، یہ تو عوام کو خودمختار بنانے والی بات ہو گئی، اور خودمختار عوام حکومتوں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں!
ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ یورپ میں بے روزگاروں کو سوشل ویلفیئر سسٹم کے تحت بے روزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے، مگر انہیں قطاروں میں کھڑا کرکے راشن یا عیدی نہیں دی جاتی۔ وہاں کی حکومتیں شہریوں کو "محتاج” بنانے کے بجائے ان کے روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے یہاں ریاست کا نظام کچھ ایسا ہے کہ غریب کو محنت کرنے کی نہیں، لائن میں لگ کر راشن لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ پہلے روزگار کے مواقع ختم کرو، پھر غریب کو دو وقت کی روٹی کا محتاج بنا دو، اور پھر ایک دن اعلان کر دو کہ ہم نے عوام کے لیے "رمضان گفٹ” کا انتظام کر دیا ہے!
یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے وہ مشہور لطیفہ یاد آتا ہے جس میں ایک آدمی گلی میں ہر روز کسی بچے کے سر پر زور سے چپت رسید کر کے کہتا، "دیکھو! اگر میں نہ ہوں تو تمہیں یہ چپت کوئی اور مارے گا!” تو صاحبو، ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پہلے حکومت معیشت کی چپت لگاتی ہے، پھر مہنگائی کی مار پڑتی ہے، اور جب عوام چیخنے لگیں تو "ریلیف پیکج” کے نام پر ایک زخم پر پھاہا رکھ دیا جاتا ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ وہ آدمی آخر میں چپت مارنا بند کر دیتا تھا، اور ہماری حکومتیں کبھی باز نہیں آتیں!
تو گزارش ہے کہ اگر واقعی عوام کی فلاح مقصود ہے تو یہ خیرات کا نظام بند کر کے ایسے منصوبے شروع کیے جائیں، جن سے لوگ عزت سے کمائیں، تاکہ انہیں ہر سال لائن میں لگ کر دس ہزار روپے لینے کی "سعادت” حاصل نہ کرنی پڑے۔ ورنہ اگلے سال شاید یہ اعلان بھی ہو کہ "پچھلے سال سے پانچ گنا زیادہ خیرات دی جا رہی ہے!” اور عوام تالیاں بجانے پر مجبور ہو جائیں۔
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔