وہ سب ایک ہال میں اکٹھے تھے— دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں کے رکھوالے، وہ لوگ جو دن میں ایک جملہ بولیں تو عالمی منڈیاں لرزنے لگتی ہیں اور رات میں ایک دستخط کر دیں تو کسی ملک کا مقدر بدل جاتا ہے۔ یہ وہ ہستیاں تھیں جو جنگوں کے آغاز اور انجام کی گنتی انگلیوں پر کرتی تھیں اور جن کے فیصلے عام آدمی کے ناشتے میں انڈہ مہنگا اور پٹرول سستا کر سکتے تھے۔
سامنے شی جن پنگ بیٹھے تھے، چینی معیشت کے گرو، جن کی پرسکون آنکھوں کے پیچھے دنیا کو ایک عظیم الشان فیکٹری میں بدلنے کا منصوبہ پنپ رہا تھا۔ ان کے برابر ولادیمیر پوتن تھے، جن کے لیے عالمی سیاست کسی شطرنج کے کھیل سے زیادہ کچھ نہیں تھی— کبھی کوئی چال خاموشی سے، کبھی کوئی چال زوردار انداز میں، اور اگر کھیل میں مزہ نہ آئے تو مہرے ہی الٹ دیے جائیں!
کمرے میں اچانک ایک زوردار قہقہہ گونجا، سب نے چونک کر دیکھا۔ سامنے ڈونلڈ ٹرمپ بیٹھے تھے، اپنی مخصوص سرخی مائل ٹائی کو درست کرتے ہوئے، جیسے کہنا چاہتے ہوں: "ارے بھائی! دنیا کو اتنا سنجیدہ کیوں لیتے ہو؟ کاروبار کرو، مزے کرو، سب چلتا ہے!” ان کی مسکراہٹ میں وہی پرانی شوخی تھی، جس نے ایک بار پوری دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ اگر کسی کے پاس سب سے زیادہ دولت، فوج اور جوش ہو تو اسے ایمانداری سے جھوٹ بولنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔
دوسری طرف نریندر مودی تھے، خاموش مگر آنکھوں میں وہی مخصوص چمک۔ وہ جانتے تھے کہ دنیا میں طاقت صرف طاقت سے نہیں، بلکہ چائے کی پیالی کے ساتھ کیے گئے سوچی سمجھی خاموشی سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان قدرے سنجیدہ نظر آ رہے تھے، مگر ان کے دماغ میں ویژن 2030 کی منصوبہ بندی چل رہی تھی— یعنی وہ وقت جب تیل کے کنویں تاریخ بن جائیں گے اور دبئی کے ہوٹل میں مفت کھانے کی امید رکھنے والے دوستوں کو مایوسی کا سامنا ہوگا۔
اور ہاں، کونے میں ایلون مسک بھی موجود تھے، جو اپنے خیالات میں مریخ پر اگلے شہر کا نقشہ بنا رہے تھے۔ ان کے برابر مارک زکربرگ تھے، جنہیں اچانک یاد آیا کہ ان کے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پرائیویسی سیٹنگز نام کی بھی کوئی چیز ہوتی تھی— مگر خیر، اس کی فکر انہیں زیادہ نہیں تھی کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ دنیا کو ٹینشن کی نہیں، میمز کی ضرورت ہے۔
ادھر بلیک راک کے لارنس فنک بیٹھے تھے، جو بینکوں کے عروج و زوال کا حساب کتاب کر رہے تھے اور نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹولٹنبرگ کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے وہ کسی خفیہ رپورٹ کا انتظار کر رہے ہوں کہ اگلی جنگ کہاں لگنی ہے تاکہ وہ فوراً "ہم سخت نوٹس لے رہے ہیں” کی پریس ریلیز جاری کر سکیں۔ جیروم پاؤل، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے مرکزی بینک کے سربراہ تھے، اپنی کرسی پر مطمئن بیٹھے تھے، جیسے کہنا چاہتے ہوں: "سب بکواس ہے، آخر میں ہم ہی سود کی شرحیں بڑھا کر سب کی نیندیں اڑا دیتے ہیں!”یہ سب لوگ دنیا کے مستقبل کی بساط بچھا رہے تھے۔ سوال صرف یہ تھا کہ کون چال چلے گا، کون مات کھائے گا، اور کون بس اپنی باری کا انتظار کرتا رہے گا؟
نوٹ :
یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات اور آرا پر مشتمل ہے۔ اس میں بیان کردہ نکات سے قلم ڈاٹ کام کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ادارہ کسی بھی قسم کی وابستگی یا ذمہ داری سے مبرا ہے۔