تحریر : کاشف جاوید
جیسا کہ آپ کو پتہ ہے، ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بن چکے ہیں، اور ان کی صدارت میں عالمی سیاست ایسے چلتی ہے جیسے محلے کے چوک میں بیٹھے بڑے بھائی کی مجلس جو زبان پر آئے، کہہ دیا، اور جو دل میں آیا، کر دیا۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی انہوں نے یوکرین اور روس کی جنگ پر جو بیانات دیے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ زلنسکی صاحب، آپ کی حیثیت بس اتنی ہے کہ خاموشی سے سنیں اور وہی کریں جو ہم کہیں۔ اس بیان کے بعد دنیا کو ایک بار پھر احساس ہوا کہ امریکی صدر کی زبان کا کوئی بریک سسٹم نہیں ہے اور عالمی سیاست کسی منطقی حکمت عملی کے بجائے اب ٹویٹر کے مزاحیہ میمز کے رحم و کرم پر چل رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں اس سب سے کیا لینا دینا؟ ہم تو پہلے ہی مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور ملکی سیاست کی چکی میں پس رہے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عالمی سیاست ہمیں اتنا ہی متاثر کرتی ہے جتنا نمک زیادہ ہونے پر ہماری بیگم کا موڈ خراب ہو جاتا ہے۔ اب امریکہ میں ٹرمپ اگلے چار سال کے لئے صدر بن چکا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ روس اور چین پر دباؤ بڑھے گا، یورپ میں دائیں بازو کی قوم پرستی اور مضبوط ہوگی، اور عالمی سطح پر معیشت مزید اونچ نیچ کا شکار ہوگی۔ اب ہمارے جیسے ممالک کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض لینا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ یعنی پہلے جو آئی ایم ایف سے قرض لینا ایسا تھا جیسے رشتہ طے ہونے کے بعد پہلی قسط ادا کرنی پڑے، اب تو رشتہ ہونے سے پہلے ہی سلامی مانگی جائے گی۔
پاکستان میں اس کے اثرات نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ایک مدرسے میں خودکش حملہ ہوا جس میں ایک معروف مذہبی رہنما شہید ہوگئے۔ دائیں بازو کی سیاست جب مغرب میں زور پکڑتی ہے تو ہمارے جیسے ممالک میں اس کا ترجمہ اکثر انتہا پسندی کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہماری معیشت پہلے ہی نزع کے عالم میں ہے اور اگر عالمی سیاست مزید سخت ہوگئی تو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط اور زیادہ ظالمانہ ہو جائیں گی۔ یعنی یہ نہیں ہوگا کہ "ہمارے حالات سمجھیں” بلکہ الٹا کہا جائے گا، "یہ پیسے لینے آئے ہیں یا بھیک مانگنے؟”۔
تو پھر کیا کریں؟ سادہ بات ہے، جو کام دنیا کر رہی ہے، وہی کریں ،سوچ سمجھ کر فیصلے، معیشت کو خودمختار بنانے کے لیے سخت اقدامات، اور بین الاقوامی سیاست میں اپنی پوزیشن واضح کرنا۔ لیکن چونکہ ہم لوگ سادہ مزاج قوم ہیں،(نوٹ سادہ مزاج محض مجبوری میں لکھا ہے باقی آپ لوگ زیادہ سمجھ دار ہیں کہ میرے کہنے کا کیا مطلب تھا ) اس لیے یہ سب کچھ چھوڑ کر ابھی بھی یہی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے اور ہمارے مسائل خودبخود حل ہو جائیں۔ حالانکہ، حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم نے خود کچھ نہ کیا تو دنیا کی بدلتی ہوائیں ہمیں بھی ایسے بہا کر لے جائیں گی جیسے پرانے سیاسی وعدے الیکشن کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم خود سے سوال کریں،ہم دنیا کے بدلتے منظرنامے میں ایک کردار بننا چاہتے ہیں یا صرف تماشائی؟
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔