تحریر : ہراکلیٹس ہراک
یہاں ہر دوسرا شخص دانشور ہے اور ہر دانشور اپنے دماغ میں ایک چھوٹا سا خلافتِ فکریہ قائم کر چکا ہے جہاں وہ خود خلیفہ ہے خود مفتی ہے خود سقراط ہے اور باقی سب رعایا جو یا تو اس کی عقلمندی پر سر دھنے یا پھر جاہل، گمراہ اور گستاخ قرار پائے۔ یہاں دانشور ایسے پیدا ہوتے ہیں جیسے سیلاب کے بعد مچھر، کہیں سے کوئی مارکس کا شاگرد بن کر اٹھتا ہے، کوئی نطشے کے نام پر لاف زنی کرتا ہے، کوئی کانٹ کے فلسفے کو یوں پیش کرتا ہے جیسے کل ہی اس کے ساتھ بیٹھ کر "کسی چیز کو بطور شے فی الذات جاننے” پر مکالمہ کیا ہو اور کوئی ہیگل کا ایسا گورکھ دھندہ باندھ دیتا ہے کہ خود ہیگل اگر قبر میں سن لے تو وہیں کروٹیں بدلنے لگے۔
قیصر احمد راجہ جیسے مفکرین کو سنو تو یوں لگے گا جیسے علم کی ساری روشنی بس انہی کے دماغ میں سمٹ آئی ہے باقی دنیا محض تاریکی میں بھٹک رہی ہے وہ جملے ایسے ترتیب دیتے ہیں کہ آدمی دس بار سوچے کہ واہ کیا گہری بات ہے اور پھر گیارہویں بار سوچے کہ یہ کہنا کیا چاہتے ہیں جاوید احمد غامدی صاحب جیسے لوگ ہیں جو منطق کی ایسی چمکدار چادر اوڑھ کر بات کرتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے استدلال کو خود انہوں نے ایجاد کیا ہو مگر جب گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو وہی الفاظی کرتب دکھائی دیتا ہے جس سے سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے مگر سننے والا سمجھتا ہے کہ شاید وہی جاہل ہے جو بات نہیں سمجھ پایا۔
پھر وہ دانشور بھی ہیں جو دلیل سے زیادہ گرجنے اور برسنے کے ماہر ہیں قیصر راجہ جیسے لوگ جو علم کو نعرے میں بدل دیتے ہیں جو منطق کو جذبات میں لپیٹ کر یوں پیش کرتے ہیں کہ بندہ دم بخود رہ جائے کہ یہ فکری محفل ہے یا پہلوانوں کی کشتی جو زیادہ زور سے چیخے گا وہی فاتح قرار پائے گا یہاں سوال جرم ہے اختلاف بغاوت ہے تحقیق شک ہے اور سوچنا گستاخی۔
یہاں ہر کوئی دوستوئیفسکی کے نام پر سر ہلاتا ہے جیسے کل ہی برادرز کرامازوف پر ان سے طویل مکالمہ ہوا ہو مگر پوچھو کہ کبھی کرائم اینڈ پنشمنٹ کی گہرائی میں اترے ہو تو آگے سے ایک تھکی ہوئی مسکراہٹ اور چند مبہم جملے سننے کو ملیں گے کامیو کا نام یوں لیا جائے گا جیسے روز اس کے ساتھ کیفے میں بیٹھ کر زندگی کی بے معنویت پر بحث کرتے ہیں مگر پوچھو کہ The Myth of Sisyphus میں Absurdity کو کس پیرائے میں بیان کیا تو جواب میں چائے کا گھونٹ بھرا جائے گا، ایک توقف ہوگا، ایک گہری سانس لی جائے گی، اور پھر کسی غیر متعلق اقتباس کے ذریعے تمہیں تمہاری جہالت کا احساس دلایا جائے گا۔
یہاں ہر شخص نطشے کو یوں بیان کرتا ہے جیسے وہ اس کا گمشدہ شاگرد ہو لیکن اگر پوچھو کہ Beyond Good and Evil میں فوق البشر کا اصل تصور کیا تھا تو آگے سے بس ایک دو الفاظی کرتب اور پھر وہی پرانا جملہ "تم نہیں سمجھو گے، یہ گہرا فلسفہ ہے” اور اسی لمحے بندہ سوچتا ہے کہ علم حاصل کرنے کے بجائے اگر چرب زبانی سیکھی ہوتی تو شاید یہ بھی کسی فلسفیانہ کیفے کا امام ہوتا۔
یہاں جارج آرویل کا نام صرف وہ لوگ لیتے ہیں جنہیں حکومت سے شکایت ہو لیکن جیسے ہی ان کے اپنے خیالات پر سوال اٹھایا جائے تو وہی آرویل کے ناول کے دشمن بن جاتے ہیں یہ وہ معاشرہ ہے جہاں ہر دوسرا شخص اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے اور جو اختلاف کرے وہ یا تو سازشی ہے یا پھر جاہل۔
یہاں لوگ سوال نہیں کرتے کیونکہ سوال گستاخی ہے یہاں تحقیق نہیں ہوتی کیونکہ تحقیق فتنہ ہے یہاں دلیل نہیں دی جاتی کیونکہ دلیل تو کافروں کا شوق ہے یہاں اگر کوئی علم کی دنیا میں حقیقتاً کچھ کرنا چاہے تو پہلے اس پر کفر و الحاد کے فتوے لگتے ہیں پھر اسے جاہل کہا جاتا ہے پھر اسے شرمندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر وہ ان سب مراحل سے بچ گیا تو بس نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی نئی سوچ جنم لے لے۔
علم کا منہج یہ نہیں کہ دو چار مشکل کتابیں پڑھ کر خود کو سقراط سمجھ لیا جائے علم یہ نہیں کہ اپنی کم علمی کو چھپانے کے لیے الفاظ کے گورکھ دھندے باندھ دیے جائیں علم یہ نہیں کہ جو سوال کرے اسے جاہل اور جو اختلاف کرے اسے دشمن سمجھا جائے بلکہ اصل علم وہ ہوتا ہے جو سوالوں کو جگہ دے، تحقیق کو پروان چڑھائے، دلیل کو جذبات پر فوقیت دے، اور استدلال کو اس کے اصل پیرائے میں پرکھے۔
لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا یہاں ہر آدمی دانشور ہے مگر علم سے خالی ہے ہر آدمی استاد ہے مگر سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہر آدمی فلسفی ہے مگر سوچنے سے قاصر ہے ہر آدمی عقل مند ہے مگر دلیل سے ناواقف ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کبھی کوئی نیا نظریہ نہیں آتا یہاں کبھی کوئی نیا مفکر پیدا نہیں ہوتا یہاں کبھی کوئی ایسا آدمی سامنے نہیں آتا جو دنیا کے فکری دھارے پر اثر ڈال سکے کیونکہ یہاں اصل کام علم حاصل کرنا نہیں بلکہ اپنے علم کا اشتہار لگانا ہے یہاں فکری نشوونما نہیں ہوتی بلکہ فکری نرگسیت کی پرورش کی جاتی ہے یہاں تحقیق نہیں ہوتی یہاں حوالہ چلتا ہے یہاں دلیل نہیں دی جاتی یہاں جذبات بیچے جاتے ہیں یہاں فکر نہیں پیدا کی جاتی یہاں صرف لفظوں کے تماشے لگائے جاتے ہیں۔
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔