تحریر۔ ( تغیر ) مبشر نور کمیانہ
۔۔۔
مُشکلات کے باوجود بھی ہمت اور حوصلہ مت ہارو! کسی سانحے سے دو چار ہو کر کمزور ہو جانا، ڈر جانا، سہم جانا، رو دینا، کسی سے اداس ہو جانا، یہ سب فطری باتیں ہیں۔ ہر شخص زندگی میں ان تمام حالات سے ضرور گزرتا ہے۔ تقریبا زیادہ تر پریشانیاں ہماری گھریلو ہوتی ہیں۔ جن کی وجہ سے انسان حالات کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ بے بس اور بے اختیار ہو کر رہ جاتا ہے۔ کچھ لوگ حالات کی سختیوں میں گھر کر مسائل کے سیلاب میں ایسے بہہ جاتے ہیں کہ دوبارہ اٹھنے کے قابل نہیں رہتے۔ کچھ لوگ اٹھ کر اپنا رستہ ہی بدل کر کہیں گم ہو کر بے نام و نشان زندگی گزار کر مر جاتے ہیں بعد میں جن کا دنیا میں نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ ہاتھوں میں تسبیح پکڑ کر مسجد کی دیواروں ساتھ بیٹھ کر زندگی گزار نے لگ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ہمت کر کے دنیا کے سامنے آ کر اپنی طاقت و جاہ و جلال دکھا کر بڑی عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے اٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔
کچھ لوگ ہمت کر کے، اپنی آنکھوں سے ٹپکتے آنسو پونچھ کر، اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر، اپنے رب سے دعا مانگ کر، رب پر بھروسہ توکل اور پختہ یقین رکھ کر اپنی منزل کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔ لہذا! مسائل آنے کے باوجود بھی ہمت اور حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے۔ پریشان مت ہوں، رونا دھونا چھوڑو، آنسو پونچھ کر اپنا کام تھوڑا تھوڑا کرتے رہو۔ دیکھنا کچھ سالوں بعد قدرت آپ کو اپنی منزل تک پہنچنے کا موقع ضرور دے گی اور اس وقت دنیا آپ کی کامیابی پر رشک کرے گی۔ انشاء اللہ!
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خُونی منظر سے۔
جس دور میں جینا مُشکل ہو، اُس دور میں جینا لازم ہے۔
۔۔۔
اِس دُنیا میں ہر انسان روزی کمانے کے لیے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھتا لیتا ہے تا کہ اسکا نظام زندگی چل سکے. کچھ لوگ روزی کمانے میں مصروف رہتے ہیں تو کچھ لوگ ترقی کر جاتے ہیں. کچھ لوگ ہنر سیکھ کر روزی کماتے ہیں تو کچھ لوگ ہنر سیکھ کر کامیاب انسان بن جاتے ہیں. دونوں میں بہت فرق ہے. ایک روزی کمانے میں خود کو دن رات مشغول رکھتا ہے اور دوسرا اس میدان میں خود کو کامیاب انسان بنانے میں دن رات مصروف رکھتا ہے. اسی طرح کچھ لوگ ہنر سیکھ کر بھی اپنا نقصان کر جاتے تو کچھ لوگ ہنر سیکھ کر کامیاب انسان بن کر آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتے.
وہ کیسے ؟ اپنے شعبہ میں کام کرتے ہوئے اس میں مزید سیکھنے کا عمل ترک کر دینے سے بھی نقصان ہو جاتا ہے۔ کچھ نیا نہ سیکھنے سے بندے کی قابلیت رفتہ رفتہ کم ہوتی رہتی ہے۔ فیلڈ میں نوکری کی مدت بڑھتی رہتی ہے لیکن کام کرنے کا انداز اور طریقہ کار پرانی طرز پر ہوتا ہے جبکہ کامیاب انسان بننے کے لیے خود کو اپڈیٹ کرنا پڑتا ہے۔ حالات اور مارکیٹ کے ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ اپنے کام میں جِدت لانا ہوتی ہے۔ خود کو حاضر دماغ اور چوکس رکھنا ہوتا ہے تب جا کر انسان اپنے ہُنر سے ایک کامیاب انسان بنتا اور امیر ہوتا ہے۔ ورنہ بیکار ہو کر بس ایک مہینہ کی روزی روٹی کمانے کے چکروں میں اپنی عمر گزار کر تھک جاتا ہے۔
پس معلوم ہوا کہ روزی کمانے کا ہنر تو سیکھ لیا مگر ترقی نہیں کی بس اسی طرح عمر بیتا دی۔ خود کو صرف روزی کمانے کے ذرائع تک محدود رکھنا دانشمندی نہیں کہلاتا. “بلکہ اُسی کام کی گہرائی تک جانا، روز کچھ نیا سیکھنا، اپنے کام میں نئی جدت لانا ” دانشمندی کہلاتا. روزی تو سبھی کماتے ہیں لیکن کامیاب کوئی کوئی ہوتا. “کامیاب انسان وہی ہوتا، وہی بنتا، وہی کہلاتا” جس نے اپنے کام سے محبت کر کے اسکی گہرائی کی تہہ تک جا کر خود کو اس کام کا” ماسٹر مائنڈ” بنایا تب آپ کامیاب انسان کہلانے کے حق دار بن سکتے۔ پھر اُس منزل پر پہنچ کر آپ شہرت، عزت، دولت، روپیہ پیسہ کے مالک بن کر اپنی مرضی کی زندگی جی سکتے ہیں۔
۔۔۔
آپ کا کام آپ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ بھرنے والا ہے۔ اور صحیح معنوں میں مطمئن ہونے کا واحد راستہ یہ ہے کہ جو آپ کو یقین ہے، وہ کام کرنا بہت اچھا کام ہے۔ اور بہت اچھا کام کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ، جو کام آپ کرتے ہو، اُس سے محبت کرو۔ اگر آپ کو ابھی تک نہیں مِلا، جو کچھ آپ کو چاہیے، تو تلاش کرتے رہیں، دوسرا کوئی شارٹ کٹ اور جادوئی حل نہیں۔ محنت کرو گے تو پیسہ بھی آئے گا اور آپ امیر شخص بنو گے۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے فارغ بیٹھے آپ کیسے کامیاب اور امیر انسان بن سکتے ہو؟
انسان سکون اور خُوشی کو چھوڑ کر پریشانی کو اُس وقت اپنے چہرے پر سجا لیتا ہے جب اُس کے دِل میں کسی بڑے مقصد کے حصول کی خواہش اور تڑپ ہو۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے اُس میں صلاحیت موجود نہ ہو یا پھر صلاحیت ہو بھی تو پھر اُس کی اپنی محنت اور عمل نہ ہو۔
زندگی میں سکون اور خُوشی کے لیے ضروری ہے یا تو خواہش کو کم کیا جائے یا پھر اپنی محنت اور صلاحیت کو بڑھایا جائے اور عملی طور پر میدان میں قدم جمایا جائے تو پھر مرد مجاہد پیدا ہوتا ہے۔ محنت اور عمل کے بغیر کسی منزل کی خواہش فقط ایک وقتی خواب ہے جو کسی بھی وقت ختم ہو سکتا ہے۔
اور آپ بس خوابوں کے سہارے خالی و کھوکھلی اور رنگین دنیا میں جی کر اپنی زندگی کو بیکار کر رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ "کامیابی” محنت والوں کے لیے ہے۔ "جنت” ایمان والوں کے لیے ہے۔ اور "عید” روزاہ داروں کے لیے ہوتی ہے۔
آپ کی زندگی کی تکلیفیں واقعی بہت زیادہ ہوں گی لیکن ہو سکتا ہے تکلیفیں اتنی زیادہ نہ ہوں اور آپ میں تکلیفیں محسوس کرنے والا احساس بہت زیادہ ہو۔ واقعی آپ کی بہت زیادہ خواہشیں پوری نہیں ہوئی ہوں گی لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کی خواہشیں ابنارمل حد تک زیادہ ہوں۔ لوگ واقعی بے وفا ہوں گے آپ کے خلوص کی قدر نہیں کرتے ہوں گے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی توقعات زیادہ ہوں اور عجیب و غریب ہوں اور ناقابل تفہیم ہوں اور ناجائز بھی ہوں۔ معاشرے میں برائی بھی بہت زیادہ ہو گی لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ میں برائی دیکھنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہو چکی ہو۔ انسان کی سب سے پہلی اور آخری ضرورت پوزیٹو تھنکنگ ہے۔ یہی دین ہے، یہی انسانیت ہے، یہی اللہ تعالیٰ کا قرب ہے، یہی کامیابی ہے، یہی حقیقی خوشی ہے۔
۔۔۔
اپنی سوچوں اور رویوں کو زیادہ سے زیادہ مثبت بناتے رہیں۔ یہ کوئی ایک دن کا پروسیس نہیں ہے بلکہ یہ زندگی بھر کا پروسیس ہے۔ اپنی کوششوں کا احترام کریں، اپنے آپ کا احترام کریں، اپنے شعبے اور اپنے کام کا احترام کریں، خود اعتمادی کا راستہ خود نظم و ضبط کی طرف جاتا ہے۔ جب آپ اپنے دونوں بیلٹ کو مضبوطی سے باندھ لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے یہ حقیقی طاقت ہے۔ ایک بات زندگی میں ہمیشہ یاد رکھنا "کسی بھی بڑی فتح کے پیچھے ہِلا دینے والی ایک بہت بڑی شکست بھی ہوتی ہے۔ اگر مُثبت کوشش جاری رکھیں تو کامیابی مُمکن ہے۔ یہ مت سوچیں کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا بلکہ اُمید رکھیں آگے بڑھنے کی”۔ آخر پر میرے پسندیدہ الفاظ قارئین کی نظر کرتا ہوں۔ "حوصلے کی ترکش میں کوشش کا وہ تیر زندہ رکھ، ہار جا چاہے زندگی میں سب کچھ، مگر پھر بھی جیتنے کی اُمید زندہ رکھ”.