تحریر : کاشف جاوید
یار میرا خیال ہے کہ اب بس بہت ہو گیا وومن کارڈ، صوبائی کارڈ، قومی کارڈ، محرومی کارڈ، شناخت کارڈ۔ ہر کوئی اپنا اپنا کارڈ کھیل رہا ہے اور اصلی مسئلہ دب کر رہ گیا ہے۔ چلو چھوڑو یہ سب، ذرا اصل بات کرتے ہیں۔یہ سیاست بھی عجیب شے ہے کبھی فلاں غائب کبھی فلاں گرفتار کبھی کوئی تنظیم غدار کبھی کوئی صوبہ باغی بی ایل اے سندھو دیش سرائیکی صوبہ پتہ نہیں کتنے نام اور کتنی کہانیاں ہیں ریاست کہتی ہے سب ٹھیک ہے عوام کہتے ہیں کچھ بھی ٹھیک نہیں تو پھر مسئلہ ہے کہاں
مسئلہ روٹی کپڑا مکان کا ہے مسئلہ یہ ہے کہ جس کے پیٹ میں روٹی نہ ہو جس کے سر پر چھت نہ ہو جس کے بچے اسکول نہ جا سکیں وہ حب الوطنی کے لیکچر سن کر کیا کرے گا آپ چاہے جھنڈے میں لپیٹ کر بھی دے دیں بھوکا آدمی نظریہ نہیں کھاتا کھانے کو روٹی چاہیے مگر یہاں تو سب الٹ چل رہا ہے ریاست کے نزدیک حب الوطنی کا پیمانہ کچھ اور ہے عوام کے نزدیک کچھ اور وہ جو سقراط نے کہا تھا کہ "جمہوریت میں عوام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہی غلطیوں کا شکار ہو جاتے ہیں کبھی غلط فیصلے کرتے ہیں کبھی غلط حکمران چنتے ہیں کبھی ان ہی کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں” ہمارے ہاں بھی یہی ہو رہا ہے عوام کو جن مسائل نے جکڑا ہے وہی ان کے اصل دشمن ہیں مگر انہیں دکھایا کچھ اور جاتا ہے
ہر کوئی اپنی شناخت کی سیاست کر رہا ہے کبھی سندھی بن کے بات ہوتی ہے کبھی بلوچ بن کے کبھی سرائیکی کبھی مہاجر ہر کوئی اپنا حق مانگ رہا ہے مگر کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ اصل مسئلہ شناخت کا نہیں وسائل کا ہے وسائل چند ہاتھوں میں قید ہیں اور باقی سب کو تقسیم کر کے الجھا دیا گیا ہے "طاقتور ہمیشہ اپنی طاقت کو قائم رکھنے کے لیے سچ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے” نطشے نے یہی کہا تھا اور یہاں بھی یہی ہو رہا ہے عوام کو اصل مسائل سے ہٹا کر شناخت کی سیاست میں الجھا دیا گیا ہے تاکہ وہ آپس میں لڑتے رہیں اور اصل دولت اور اختیار پر قابض لوگ اپنی جگہ مستحکم رہیں
یہ سوال کوئی نہیں پوچھتا کہ تعلیم کیوں نہیں ہے صحت کے نظام کا کیا بنا مہنگائی نے عام آدمی کی کمر کیوں توڑ دی روزگار کیوں نہیں ہے عدل کیوں ناپید ہے کرپشن کیوں ختم نہیں ہو رہی سب صرف یہ پوچھتے ہیں کہ کون کس نسل سے ہے کون کس زبان میں بات کرتا ہے کون کس قوم کا ہے کون کس فرقے کا ہے مگر سوال یہ نہیں ہے سوال یہ ہے کہ کیا تمہیں روٹی نصیب ہے کیا تمہارے بچے محفوظ ہیں کیا تمہیں انصاف ملتا ہے اگر ان سوالوں کا جواب نہیں ہے تو پھر تمہاری شناخت چاہے کچھ بھی ہو تم ایک محکوم ہو تمہارا استحصال ہو رہا ہے اور تم اس سیاست کا ایندھن بن رہے ہو
تو جناب مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فلاں غائب کیوں ہوا یا فلاں گرفتار کیوں ہوا مسئلہ یہ ہے کہ ریاست کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے اور جب ریاست کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہوتا تو وہ یا تو ڈراتی ہے یا تقسیم کرتی ہے ہم سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اصل مسئلہ ہماری بھوک ہے ہماری محرومی ہے ہماری پسماندگی ہے جب تک اس پر بات نہیں ہوگی سب کچھ بے معنی رہے گا
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔