تحریر : ہراکلیٹس ہراک
یار ہر سال جیسے ہی 8 مارچ آتا ہے اور دنیا بھر میں عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے ہمارے ہاں کچھ حضرات کو اچانک غیرت کا دورہ پڑ جاتا ہے کہیں سے خلیل الرحمٰن قمر اپنی مخصوص گالیوں کے ساتھ برآمد ہو جاتے ہیں کہیں اوریا مقبول جان مائیک سنبھال کر تہذیب و تمدن کے نوحے پڑھنے لگتے ہیں کہیں قیصر راجہ اور ساحل عدیم سوشل میڈیا پر مردانگی کے آنسو بہاتے نظر آتے ہیں اور کہیں زید حامد اور انصار عباسی مغربی سازشوں کے ایسے پیچیدہ تھیوریز پیش کرتے ہیں کہ سی آئی اے اور موساد والے بھی حیران رہ جائیں کہ ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ ہم نے پاکستان میں عورت مارچ کے ذریعے ایسا خطرناک حملہ کر دیا ہے مظہر برلاس احمد قریشی صابر شاکر اور باقی اس قبیلے کے تمام خودساختہ تہذیب کے محافظین اچانک ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چھا جاتے ہیں اور عورت مارچ کو ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کی خواتین کی تفریح قرار دے کر اپنی سالانہ قومی ذمہ داری پوری کرتے ہیں
یہ وہی لوگ ہیں جو ہر سال اپنی اخلاقیات کی چورن کی دکان سجا کر عوام کو وہی گھسی پٹی باتیں بیچنے آ جاتے ہیں ہماری عورت کو سارے حقوق مل چکے ہیں عورت کو مغرب کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے یہ سب این جی اوز کا دھندہ ہے اور سب سے مقبول جملہ ہماری متوسط طبقے کی عورت تو بہت خوش ہے بھئی سبحان اللہ اگر عورت واقعی اتنی خوش ہے تو پھر ہر سال ہزاروں کیسز ریپ گھریلو تشدد غیرت کے نام پر قتل اور ہراسمنٹ کے کیوں رپورٹ ہوتے ہیں یا پھر شاید مسئلہ یہ ہے کہ ان خواتین کو کوئی اطلاع نہیں کہ وہ خوش ہیں انہیں خوشی کا یہ بریکنگ نیوز ابھی تک ملی ہی نہیں ہے
عورت مارچ کا مقصد صرف اتنا ہے کہ خواتین کو وہ حقوق ملیں جو کسی بھی مہذب معاشرے میں خودبخود حاصل ہوتے ہیں لیکن یہاں اس مطالبے کو مغربی سازش بنا دیا جاتا ہے اور ہر سال بحث وہیں آ کر اٹک جاتی ہے کہ یہ نعرے غلط ہیں یہ خواتین بدتمیز ہیں اور ان کو گھروں میں رہنا چاہیے بھئی اگر عورت واقعی اتنی آزاد ہے تو اسے فیصلہ کرنے دو کہ اسے گھر میں رہنا ہے یا باہر جانا ہے لیکن نہیں فیصلہ بھی ہم کریں گے حقوق بھی ہم دیں گے آزادی بھی ہم طے کریں گے کہ کتنی جائز ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کرنے کے بعد بھی یہی لوگ عورت مارچ والوں پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ مردوں کے حقوق سلب کرنا چاہتی ہیں
اور سب سے زیادہ تکلیف تو انہیں میرا جسم میری مرضی والے نعرے سے ہوتی ہے حالانکہ اس کا مطلب سیدھا سادہ یہی ہے کہ عورت کی زندگی کے فیصلے وہ خود کرے کسی اور کی اجارہ داری نہ ہو لیکن ہمارے معصوم و مظلوم مرد حضرات اسے فوراً بے راہ روی کا لائسنس سمجھ لیتے ہیں حالانکہ یہی نعرہ اس بچی کے لیے ہے جسے زبردستی بیاہ دیا جاتا ہے اس ورکر کے لیے ہے جسے دفتر میں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اس بیوی کے لیے ہے جسے شوہر کی مرضی کے بغیر حاملہ ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس لڑکی کے لیے ہے جسے صرف اس لیے قتل کر دیا جاتا ہے کہ اس نے پسند کی شادی کرنی چاہی
فیمینزم کوئی نیا یا انوکھا نظریہ نہیں بلکہ صدیوں کی جدوجہد کا نام ہے دنیا کے ہر معاشرے میں عورتوں نے ترقی اسی تحریک کے ذریعے کی ہے یورپ میں پہلے عورت نے ووٹ کا حق مانگا پھر ملازمت میں برابری کی بات کی پھر گھریلو تشدد کے خلاف قوانین بنوائے لیکن ہمارے یہاں اگر کوئی عورت اپنے بنیادی حقوق کی بات کر لے تو یہی بزرگوار جنہیں عورت کے حقوق کا شدید درد لاحق ہوتا ہے فوراً دہائیاں دینے لگتے ہیں کہ یہ سب فحاشی اور بے حیائی ہے بھئی اگر کسی کو واقعی عورت کی عزت کا اتنا خیال ہے تو اسے چاہیے کہ وہ عورت کو صرف عزت کا نشان نہ سمجھے بلکہ ایک مکمل انسان تسلیم کرے لیکن نہیں اس سے مسئلہ یہ ہوگا کہ عورت پھر اپنے فیصلے خود کرے گی اور یہی بات تو ہمارے مردوں کے لیے سب سے زیادہ ناقابل برداشت ہے
تو میرے پیارے معصوم دانش ورو انسان کے بچے بنو اور عورتوں کو بھی ان کے حقوق دے دو نہیں بلکہ وہ خود لے لیں گی تم سے اور تمہاری مرضی سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔