تحریر: کاشف جاوید
اکثر لوگ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں کہ ہمیں مستشرقین کو نہیں پڑھنا چاہیے کیونکہ یہ صرف مغرب کی بولی بولتے ہیں اور ان کا مقصد اسلامی دنیا کے خلاف پروپیگنڈا پھیلانا ہوتا ہے یہ رائے وہی حضرات دیتے ہیں جنہوں نے نہ کبھی مستشرقین کی کتابیں کھول کر دیکھی ہوتی ہیں نہ ان کے دلائل کو پرکھا ہوتا ہے ان کے لیے ہر مغربی مفکر مشکوک ہوتا ہے اور ہر دلیل کسی سازش کی کڑی لگتی ہے ایسے لوگ اپنی علمی پیاس اور فکری تشنگی اوریا مقبول جان کی جذباتی تقریروں اور زید حامد کے لال رومال سے بجھاتے ہیں ان کے نزدیک ہر مغربی نصاب اسلام دشمن اور ہر اختلافی رائے کسی خفیہ ایجنڈے کی علامت ہے
یہ بات دلچسپ ہے کہ ایڈورڈ سعید جیسے مفکر نے مغربی تعلیمی اداروں ہی میں آنکھ کھولی اور انہی اداروں کو آئینہ دکھایا انہوں نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’اورینٹلزم‘‘ میں بتایا کہ انیسویں صدی کے یورپی محققین مشرق یعنی اسلامی دنیا کو صرف ایک ’غیر‘ کے طور پر دیکھتے تھے ایک ایسی اجنبی اور پسماندہ دنیا جس کی تہذیب کو صرف مغربی قابو سے ہی ’فلاح‘ مل سکتی ہے اس عمل کو وہ علمی تحقیق کا نام دیتے تھے لیکن دراصل یہ سب کچھ استعمار کا جواز پیدا کرنے کی کوشش تھی
یہ وہ وقت تھا جب یورپی سامراج دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑ رہا تھا بھارت افریقہ مشرق وسطیٰ ہر جگہ مغربی طاقتیں اپنی حکومت قائم کرنے میں مصروف تھیں لیکن وہ اپنے قبضے کو صرف طاقت کا کھیل نہیں بلکہ ’تہذیبی مشن‘ قرار دیتے تھے وہ کہتے تھے کہ ہم تعلیم لائے ہیں قانون لائے ہیں ترقی لائے ہیں اور یہ دعویٰ وہ ایسے وقت میں کرتے تھے جب ان کی توپوں کی گرج اور بندوقوں کی گولیاں مقامی آبادی کی چیخوں میں گم ہو جاتی تھیں
ایڈورڈ سعید کی اصل بات یہ تھی کہ سلطنتیں ہمیشہ خود کو باقی سلطنتوں سے مختلف ثابت کرتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ ہم فاتح نہیں محسن ہیں ہم حملہ آور نہیں نجات دہندہ ہیں اور یہی وہ سب سے بڑا فریب ہوتا ہے جو تاریخ بار بار دہراتی ہے ہر سامراج خود کو اخلاقی برتری کا چیمپیئن ظاہر کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ وسائل لوٹتا ہے ثقافتیں مسخ کرتا ہے اور اپنی طاقت کو مستقل بنانے کے لیے لوگوں کے ذہن بھی غلام بناتا ہے
آج بھی اگر کوئی طاقتور ملک کسی کمزور ملک میں فوجی مداخلت کرے تو وہ اپنے عمل کو جنگ نہیں امن کہتا ہے وہ کہتا ہے کہ ہم انسانیت کی خدمت کے لیے آئے ہیں ہم جمہوریت کا پرچار کرنے آئے ہیں لیکن جب وہ چلے جاتے ہیں تو پیچھے صرف بربادی رہ جاتی ہے تیل نکل جاتا ہے معیشت بیٹھ جاتی ہے اور عوام برسوں تک زخم چاٹتے رہتے ہیں لہٰذا ہمیں ہر اُس سلطنت سے ہوشیار رہنا چاہیے جو خود کو باقیوں سے مختلف کہتی ہے کیونکہ تاریخ کا سب سے پرانا جھوٹ یہی ہے کہ ’’ہم دوسرے سامراجوں جیسے نہیں ہیں‘‘
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔