• Qalam Club English
  • ہمارے ساتھ شامل ہوں
  • ہم سے رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
پیر, 30 جون, 2025
Qalam Club
  • صفحۂ اول
  • پاکستان
  • انٹرنیشنل
    • چائنہ کی خبریں
  • ہماری خبر
  • کرائم اینڈ کورٹس
  • تقرروتبادلے
  • شوبز
  • دلچسپ و عجیب
  • سائنس اور ٹیکنالوجی
  • صحت و تعلیم
  • کھیل
  • تبصرہ / تجزیہ
  • تاریخ فلسفہ
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • پاکستان
  • انٹرنیشنل
    • چائنہ کی خبریں
  • ہماری خبر
  • کرائم اینڈ کورٹس
  • تقرروتبادلے
  • شوبز
  • دلچسپ و عجیب
  • سائنس اور ٹیکنالوجی
  • صحت و تعلیم
  • کھیل
  • تبصرہ / تجزیہ
  • تاریخ فلسفہ
No Result
View All Result
Qalam Club
No Result
View All Result
Home پاکستان

تھانہ کلچر ،پولیس ریفارمزاور عوام تحریر:سابق ڈی ایس اپی عزیز اللہ خان

News Editor by News Editor
فروری 1, 2020
in پاکستان, تبصرہ / تجزیہ, کرائم اینڈ کورٹس
0 0
0

تحریر : عزیز خان ڈی ایس پی (ریٹائرڈ) ایڈوکیٹ ہائی کورٹ لاہور

پولیس ریفارمز اور تھانہ کلچر تبدیلی کی باتیں شہباز شریف نے شروع کیں پھر عمران خان نے مُلک میں پولیس ریفارمز کا وعدہ کیا مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ دونوں حکومتیں اس محکمہ کا کُچھ بھی نہ کر سکیں مارشل لا کے ادوار میں کبھی بھی پولیس ریفارمز کی باتیں نہیں ہویں .کُچھ دن قبل پولیس ریفارمز کا بُہت شور اُٹھا پولیس میں تبدیلی کی باتیں ہوئیں اسلام آباد میں ASPS کو تھانوں پر SHO لگایا گیا اب وہ ASPS ترقی یاب ہو گئے ہیں کسی نے نہیں بتایا وہ تجربہ کیسا رہا .
مجھے یاد ہے 2017 میں پولیس ریفارمز کی باتیں ہوئیں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ڈسٹرکٹ منیجمنٹ کے افسران کو ضلع میں DPO کی نگرانی پر لگایا جائے PSP افسران نے اپنی ایک میٹنگ بلوائی CPO لاہور میں میٹنگ تھی میرے DPO سرگودھا کپٹن سُہیل تھے جو آجکل CPO فیصل آباد ہیں DPO کی طرف سے مجھے میسج موصول ہوا کہ صبح اُس میٹنگ میں میں نے شرکت کرنی ہے مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ میٹنگ کا ایجینڈا کیا ہے میٹنگ کا آغاز دس بجے ہونا تھا میں کیونکہ نو بجے سنٹرل پولیس آفس پُہنچ گیا تھا میٹنگ روم میں جا کر بیٹھ گیا مجھے معلوم ہوا کہ آج کی میٹنگ DMG کو ملنے والے اختیارات کے خلاف PSP افسران کا احتجاج ہے حکومت کے اس اقدام کے خلاف پنجاب کے تمام PSP افسران نے اکٹھے ہونا تھا.آئی جی مشاق سکھیرا وزیر اعلی کے دفتر گئے ہوئےتھے ا ن کے آنے پہ میٹنگ شروع ہونی تھی ۔

اس دوران میٹنگ ہال میں آہستہ آہستہ PSPآفسران آنا شروع ہوگئے ۔میں نے اپنی پوری ملازمت میں اتنے چاند ستارے پہلی دفعہ دیکھے ۔ ہر طرف کندھوں پے لگے ہوئے رینکس جن میں ایڈیشنل آئی جی، ڈی آئی جی ، ایس ایس پی ، ایس پی اور اے ایس پیز شامل تھے ۔ میں اکیلا رینکر ایک کونے میں شرمندہ ہوکر کھڑا تھا ۔ سوائے سُہیل سکھیرا ایس ایس پی اورمبشر میکن ایس ایس پی صاحب کے کسی نے میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ۔ قبل اذیں میں مبشرمیکن صاحب سے کبھی نہیں ملا لیکن کوٹ مومن کی تعیناتی کے دوران کبھی کبھی ان کا ٹیلی فون آجایا کرتا اور سُہیل سکھیرا کے والد صاحب عاشق سکھیرا رحیم یار خان کی تعیناتی میں میرے ڈی ایس پی رہے تھے ۔تھوڑی دیر بعد آئی جی مشتاق سکھیرا آگئے اور انھوں نے یہ خوشخبری سنائی کے وزیراعلی نے ہمارے مطالبات مان لیے ہیں اب ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ ہم پہ حکمرانی نہیں کرئے گا۔ اس دن میں نے محسوس کیا کے یہ پی ایس پی افسران کس طرح اکٹھے ہیں اور اپنے حقوق کے لیے کس طرح یک جاں ہوجاتے ہیں ۔ ان کی پروموشن ، ان کی سہولتیں باقی پولیس ملازمین سے بالکل الگ تھلگ ہیں
۔
پھر میں نے موجودہ حکومت میں سانحہ ساہیوال اور سانحہ قصور کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی پولیس ریفارمز پر باتیں سنیں۔ پھر مسودہ بنا کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو ڈیپٹی کمشنر کے ماتحت کردیا جائے لیکن پھر پی ایس پی کلاس اکٹھی ہوگئی ۔حکومت کو ہڑتال اور استعفوں کی دھمکیاں دی گئیں اور پھر حکومت نے اس مافیا کے سامنے گٹھنے ٹیک دیئے۔اگر ماتحتان ادنیٰ اور ماتحتان اعلیٰ کے پرموشن کے نظام کو دیکھا جائے تو ایک ایک رینک پر پندرہ سے بیس سال لگ جاتے ہیں ۔ ملازمین کی پرموشن نہیں ہوتی ، کانسٹیبل بھرتی ہونے والا ملازم بڑی مشکل سے اے ایس آئی یا سب انسپکٹر ریٹائرڈ ہوتاہے اے ایس آئی بھرتی ہونے والا ماتحت اعلیٰ بڑی مشکل سے ڈی ایس پی کے رینک تک پہنچتا ہے جبکہ بطور اے ایس پی پولیس میں آنے والا افسر ایڈیشنل آئی جی یا آئی جی تک بڑے آرام سے پہنچ جاتا ہے ۔

نچلے ملازمین کی پرموشن ،بھرتی اور ٹرینگ کا نظام بہت فرسودہ ہے ۔ پولیس میں پرموشن تو مشکل ہے ہی مگر ہر رینک پر بھرتی نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے اور محکمہ پولیس کی بربادی میں اپنا پورا پورا حصہ ڈالا ہے ۔جسکی مثال وہ ٹی ایس آئز ہیں جو پہلےمحکمہ میں اے ایس آئی بھرتی ہوئے اور بعدمیں پی کیڈٹ سکیم کے تحت امتحان دے کر سب انسپکٹر ہوگئے ۔قبل اذیں وہ اپنی ملازمت میں ایک سال کے بیسک کورس کے علاوہ ڈسٹرکٹس میں اے ، بی ، سی ، ڈی کورس بھی کرچکے تھے مگر ان کو دوبارہ ایک سال کاکورس کروایا جارہاہے ۔اسی طرح وہ اپنے ڈسٹرکٹس میں جاکر دوبارہ اے ، بی ، سی ، ڈی کورس کریں گے ۔ سات سے دس سال تک محکمہ میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر نوکری کرنے کے بعد ان سے دوبارہ یہ کورسزکروانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔اس پر آج تک کسی نے نہیں سوچا ؟ایک بھیڑ چال ہے جس پر 72 سال سے یہ محکمہ چل رہا ہے ۔نہ تو اس کی ٹرینگ بہتر ہوئی ، نہ کسی نے ملازمین کی ترقی (پرموشن ) کے سسٹم میں تبدیلی کی ۔اب یہ عالم ہے کہ ایک عہدہ پر بھرتی ہونے والا پولیس ملازم اسی عہدہ پرریٹائر ہو گا۔ پولیس میں نئے آنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اب دلبرداشتہ ہوکر اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ اور سوچ رہے ہیں
۔
تھانہ کلچر کی تبدیلی کی باتیں حکمرانوں نے بہت کئیں ۔ہر آنے والا حکمران اپنے مفاد کی خاطر اس محکمہ کو استعمال کرتارہااور پولیس کے افسران بالا اپنے مفاد کی خاطر پولیس ملازمین کی قربانیاں دیتے رہے ۔اپنے لیے تمام سہولتیں اور بروقت پرموشن لینے والے پی ایس پی افسران بھی تھانہ کلچر کی تبدیلی کی باتیں کرتے ہیں مگر آج تک انھوں نے محکمہ پولیس کا کیس ایمانداری سے حکمرانوں کے سامنے پیش نہیں کیا۔ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تفتیشی افسر کے پاس ناتو سرکاری گاڑی ہوتی ہے کے وہ ملاحظہ موقع کرسکے نہ ہی ملزمان کوپکٹرنے کے لئے اس کے پاس وسائل تو پھر وہ کرپشن کیوں نہ کرئےََ؟؟؟
پولیس تھانہ محکمہ پولیس کا بنیادی یونٹ ہے جہاں سے کرپشن شروع ہوتی ہے اگر ان ملازمین کو و ہ ساری سہولتیں دی جائیں جو کسی بھی تفتیش کےلیے ضروری ہوتی ہیں ۔ اسی طرح انسانی بنیادی ضروریات ملازمین کو بھی میسر ہوں جس میں 8 گھنٹے ڈیوٹی ، تھانہ پر کھانے اور رہائش کا انتظام ، ملازمین کے بچوں کی تعلیم ، صحت کی سہولیات شامل ہے تو کوئی وجہ نہیں کے یہی ملازمین موٹروئے پولیس کی طرح ایمانداری اپنی ڈیوٹی سرانجام دیں ۔مگر پتہ نہیں کیا وجہ ہے کے سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود نہ تو حکمران اور نہ ہی محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران اس طرف کوئی توجہ دیتے ہیں ۔درجہ چہارم کے تمام ملازمین مثلاً اردلی باورچی وغیرہ ان پی ایس پی افسران کی خدمت میں ہروقت حاظر ہیں ۔جبکہ کسی رینکر ایس پی یا ڈی ایس پی کے پاس درجہ چہارم کا کوئی ملازم نہیں

ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف لاہور میں 29 ہزارپولیس ملازمین تعینات ہیں ۔لاہور کے 86 تھانہ جات کے دونون ونگز کی نفری کل ملاکر دس ہزار بنتی ہے ۔جبکہ بقیہ 19 ہزار پولیس ملازمین ریٹائرڈ اور حاضر سروس ججز ، بیروکریٹس اور سیاستدانوں کے پروٹوکول اور حفاظت پر استعمال ہوتے ہیں ۔ اگر یہی 19 ہزار پولیس ملازمین ان فضول ڈیوٹیوں سے ہٹاکر تھانوں پر تعینات کئے جائیں تو بڑےآرام سے تین شفٹیں بن سکتی ہیں ۔ پچھلے دنوں انسپکٹر جنر ل آف پولیس کا بیان بڑا خوش آئند تھا کے محکمہ پولیس میں شفٹیں بناکر ڈیوٹی لی جائے گی ۔ لیکن مجھے لگتا ہے یہ احکامات بھی اسی طرح کے ہوں گے جس طرح انویسٹی گیشن اور گشتی پولیس کی تقسیم میں ہواتھا۔
میری آئی جی صاحب سے صرف یہ درخواست ہے کہ آپ اگر درجہ چہارم کے ملازمین کی مکمل فہرست اور لاہور کے بقیہ 19 ہزار پولیس ملازمین کی فہرست منگوا کر ملاحظہ فرمالیں تو آپکو یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ سارے ملازمین کہاں ہیں ۔ ان میں بہت سے ملازمین افسرا ن کے گھر وں پر نوکروں کی طرح کام کررہے ہیں جن کو ملازمت چھوڑے دس سال سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں ۔مگر کیونکہ آپ سب ایک ہیں تو یہ کام آپکے لیے بہت مشکل ہے ۔آپ نے بھی ریٹائرڈ ہونا ہے اور آپکو بھی ریٹائرمنٹ کےبعد بہت سے پولیس ملازمین اپنے گھر کے کام کاج کے لیے چائیے ہروقت کم نفری اور کم بجٹ کا رونارونا ٹھیک نہیں ہے ۔یہ توصرف لاہور کی نفری کاحال ہے جبکہ پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں بھی ہرجگہ غیرضروری پروٹوکول اور سکیورٹی کے نام پر نچلے درجہ کے پولیس ملازمین ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کے گھر ذاتی ملازم کے طور پر کام کررہے ہیں ۔جس کا خمیازہ عوام بھگت رہی ہے ۔

 

نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔

Share this:

  • Click to share on Twitter (Opens in new window)
  • Click to share on Facebook (Opens in new window)
  • Click to share on WhatsApp (Opens in new window)

Related

Tags: dspLahore PakistanPolice behavierPolice CulturePolice Culture ChangePUBLICEsp
Previous Post

تیزگام حادثہ سلنڈر پھٹنے کی بجائے شارٹ سرکٹ سے ہونے کا انکشاف

Next Post

شکاری خود شکار ہو گیا تحریر:عزیز خان ڈی ایس پی (ریٹائرڈ)

News Editor

News Editor

Next Post

شکاری خود شکار ہو گیا تحریر:عزیز خان ڈی ایس پی (ریٹائرڈ)

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ خبریں

رافیل گروسی

ایران اب بھی چند ماہ میں افزودہ یورینیم تیار کر سکتا ہے، آئی اے ای اے

جون 29, 2025
اولمپکس

چائنا میڈیا گروپ نے میلان سرمائی اولمپکس کے لئے نشریاتی حقوق حاصل کر لئے

جون 29, 2025
ترجمان

اپنے اصولی موقف کا مضبوطی سے دفاع کرکے ہی ہم اپنے جائز حقوق و مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں، چینی وزارت تجارت

جون 29, 2025
  • Trending
  • Comments
  • Latest
ایف آئی اے

ایف آئی اے میں بھرتیوں کا اعلان

جون 1, 2024

سی ٹی ڈی پنجاب میں نوکری حاصل کریں،آخری تاریخ 18 اپریل

اپریل 17, 2020

پنجاب پولیس میں 318 انسپکٹر لیگل کی سیٹوں کا اعلان کردیا گیا

اپریل 19, 2020

حسا س ادارے کی کاروائی، اسلام آباد میں متنازعہ بینرزلگانے والے ملزمان گرفتار

اگست 7, 2019
وسطی ایشیا

چین اور قازقستان وزرائے خارجہ کاکثیر الجہتی تعاون کا اعادہ دونوں فر یقین کا یکطرفہ تحفظ پسندی کی مخالفت کر نے پر اتفاق

2
کراچی

کراچی، میٹرک کے سالانہ عملی امتحانات کی تاریخوں کا اعلان کردیا گیا

2

معشوقہ کابیوی بن کر ون فائیو پر فون، لڑکے کو نکاح سے پہلے گرفتار کرا دیا

1

پی سی بی بھی ہمدرد بن گیا، کورونا ریلیف فنڈ میں ایک کروڑ سے زائد رقم عطیہ کردی

1
رافیل گروسی

ایران اب بھی چند ماہ میں افزودہ یورینیم تیار کر سکتا ہے، آئی اے ای اے

جون 29, 2025
اولمپکس

چائنا میڈیا گروپ نے میلان سرمائی اولمپکس کے لئے نشریاتی حقوق حاصل کر لئے

جون 29, 2025
ترجمان

اپنے اصولی موقف کا مضبوطی سے دفاع کرکے ہی ہم اپنے جائز حقوق و مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں، چینی وزارت تجارت

جون 29, 2025
لاجسٹکس

چین کی لاجسٹکس انڈسٹری کی کل آمدنی 5.6 ٹریلین یوآن تک پہنچ گئی

جون 29, 2025
Qalam Club

دورجدید میں سوشل میڈیاایک بااعتباراورقابل بھروسہ پلیٹ فارم کے طورپراپنی مستحکم جگہ بنا چکا ہے۔ مگر افسوس کہ چند افراد ذاتی مقاصد کےلیےجھوٹی، بےبنیاد یاچوری شدہ خبریں پوسٹ کرکےاس کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ ایسےعناصر کےخلاف جہاد کےطورپر" قلم کلب" کا آغازکیاجارہاہے۔ یہ ادارہ باصلاحیت اورتجربہ کارصحافیوں کاواحد پلیٹ فارم ہےجہاں مصدقہ خبریں، بے لاگ تبصرے اوربامعنی مضامین انتہائی نیک نیتی کےساتھ شائع کیے جاتے ہیں۔ ہمارے دروازےان تمام غیرجانبداردوستوں کےلیےکھلےہیں جوحقائق کومنظرعام پرلا کرمعاشرے میں سدھارلانا چاہتے ہیں۔

نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے"قلم کلب"کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔

  • ہمارے ساتھ شامل ہوں
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ کریں
  • رازداری کی پالیسی
  • شرائط و ضوابط
  • ضابطہ اخلاق

QALAM CLUB © 2019 - Reproduction of the website's content without express written permission from "Qalam Club" is strictly prohibited

قلم کلب © 2019 - تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں.

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • پاکستان
  • انٹرنیشنل
    • چائنہ کی خبریں
  • ہماری خبر
  • کرائم اینڈ کورٹس
  • تقرروتبادلے
  • شوبز
  • دلچسپ و عجیب
  • سائنس اور ٹیکنالوجی
  • صحت و تعلیم
  • کھیل
  • تبصرہ / تجزیہ
  • تاریخ فلسفہ

قلم کلب © 2019 - تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں.

Login to your account below

Forgotten Password?

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Discover more from Qalam Club

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue Reading

 

Loading Comments...