تحریر : ہراکلیٹس ہراک
یوں تو فلسفہ ایک خشک اور سنجیدہ مضمون سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر اس میں چین کے قدیم دانشوروں کی حکایات شامل کر لی جائیں، تو یہ کسی مارشل آرٹس فلم جتنا دلچسپ ہو جاتا ہے بس جیکی چن اور بروس لی کی لڑائی نکال کر اور کنفیوشس اور لاؤزی کی علمی تلواریں شامل کر کے۔
چین میں ایک زمانہ تھا جب ہر گلی، ہر محفل اور ہر چائے خانے میں نئے خیالات جنم لے رہے تھے، جیسے آج کل سوشل میڈیا پر ہر دوسرا شخص فلسفی بنا بیٹھا ہے۔ اس دور کو "ہنڈریڈ اسکول آف تھاٹ” کہا جاتا ہے، اور یہ کوئی عام اسکول نہیں تھا جہاں صبح کی اسمبلی میں بچوں کو سیدھا کھڑا رہنے کا کہا جاتا تھا۔ یہاں مختلف نظریات، خیالات اور فلسفیانہ مکاتب فکر کا طوفان برپا تھا۔
اب جہاں یونان کے فلسفی بیٹھے کائنات کی گتھیاں سلجھا رہے تھے اور "اصل حقیقت” کی کھوج میں لگے تھے، وہیں چین کے اہلِ دانش عملی سیاست، اخلاقیات اور انسانی رویوں کی گرہیں کھولنے میں مصروف تھے۔ یعنی جہاں سقراط اور افلاطون یہ سوچ رہے تھے کہ "یہ دنیا بنی کیسے؟”، وہیں لاؤزی اور کنفیوشس کا مسئلہ یہ تھا کہ "دنیا چلتی کیسے ہے؟”
چین کے فلسفی لاؤزی (یا لاؤزو، یا لاؤ تسے جو بھی آپ کو آسان لگے) نے ایک زبردست آئیڈیا پیش کیا، جسے "ڈاؤ” کہا جاتا ہے۔ اب ڈاؤ کوئی عام کانسپٹ نہیں بلکہ زندگی کا وہ فلو ہے جس میں سب کچھ قدرتی انداز میں چلتا ہے، جیسے دریاؤں کا بہاؤ، دن کا رات میں بدلنا، یا کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کا سیمی فائنل تک پہنچنا اور وہاں دل توڑ دینا۔ (خیر اس بار تو یہ نوبت بھی نہیں آئی!)
1600 قبل مسیح سے 1045 قبل مسیح تک شینگ خاندان کے لوگ پوری ایمانداری سے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ان کی قسمت دیوتا طے کرتے ہیں، اور وہ اپنے آباؤ اجداد کی پرستش کر کے شاید کوئی "فیور” لینے کی کوشش کرتے تھے۔ گویا اگر پردادا خوش ہو گئے تو کاروبار چمک اٹھے گا، اور اگر ناراض ہو گئے تو کھیتوں میں ٹڈی دل حملہ کر دے گا۔
پھر آیا 1044 قبل مسیح، جب زاؤ خاندان نے اقتدار سنبھالا اور لوگوں کو یہ "سمجھایا” کہ اقتدار تو آسمانی فرمان کے تحت ہی ملتا ہے، یعنی بادشاہ خدا کی مرضی سے ہی بنتے ہیں۔ اب ظاہر ہے، جب بادشاہ خود کہہ رہا ہو کہ اس کی حکومت اوپر والے کی مرضی سے چل رہی ہے، تو رعایا کے پاس ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس دور میں سیاسی فیصلوں کو ہی "خدائی منشا” کا لیبل لگا دیا گیا—یعنی اگر بادشاہ ٹیکس بڑھا دے تو یہ بھی قدرت کا فیصلہ سمجھا جائے، اور اگر رعایا شور مچائے تو اسے بغاوت قرار دے کر سیدھا قید خانے بھیج دیا جائے۔
اسی سیاسی اور نظریاتی "کشتی” کے دوران ڈاؤ مت نے جنم لیا اور چھٹی صدی قبل مسیح میں اپنے فلسفیانہ خیالات کے ساتھ میدان میں آیا۔ تب چین اندرونی جھگڑوں، خانہ جنگیوں اور اقتدار کی "رسہ کشی” میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔ زاؤ خاندان کے نئے منتظمین اور بڑی ریاستی شخصیات نے حکومتی معاملات، تجارت اور سازشوں کو مہارت سے سنبھالا اور درباری سیاست کو ایک "آرٹ” کی شکل دے دی۔ اس دور میں وہی کامیاب تھا جو یا تو درباری چالاکیوں میں ماہر تھا یا پھر اس نے اپنا کوئی الگ فلسفہ بنا لیا تھا، جیسے ڈاؤ مت والوں نے کیا۔
لاؤزی نے کہا کہ "دوسروں کو جاننا ذہانت ہے، لیکن اپنے آپ کو جاننا اصل حکمت ہے۔” یعنی اگر آپ کے پاس وائی فائی کا پاسورڈ ہے، تو آپ ذہین ہیں، لیکن اگر آپ کو معلوم ہے کہ موبائل کے بغیر زندگی گزارنا ممکن ہے، تو آپ واقعی عقلمند ہیں۔
چین کے قدیم دانشور یہ سمجھتے تھے کہ ہر چیز ایک مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ دن رات میں بدلتا ہے، گرمی سردی میں، اور خوشحالی بحران میں—یہ سب ایک قدرتی سائیکل ہے، جو کبھی رکتا نہیں۔ ان کے نزدیک دنیا میں کوئی بھی حالت مستقل نہیں، بلکہ سب کچھ ایک دوسرے سے جُڑا ہوا اور ایک مسلسل بہاؤ میں ہے۔
لاؤزی نے کہا کہ دنیا میں دس ہزار قسم کے مظاہر ہیں (یعنی بے شمار چیزیں) اور ان میں سے انسان بھی ایک ہے، مگر کوئی بھی چیز دوسری سے برتر یا کمتر نہیں۔ یعنی ہم سب "اسپیشل اسٹیٹس” کے بغیر ایک قدرتی ترتیب کا حصہ ہیں۔
لیکن پھر مسئلہ کہاں آتا ہے؟ مسئلہ تب آتا ہے جب ہم اپنی خواہشات اور ضد کے ذریعے قدرت کے اس بہاؤ میں مداخلت کرتے ہیں۔ جیسے کہ فطرت نے ہمیں متوازن زندگی گزارنے کے لیے بنایا، مگر ہم رات 3 بجے تک سکرولنگ کرتے رہتے ہیں اور پھر صبح الارم بجنے پر قسمت کو کوستے ہیں۔
لاؤزی کے مطابق، اصل نیک زندگی وہ ہے جس میں ہم قدرت کے اصولوں کے مطابق چلیں زبردستی نہیں بلکہ خودبخود۔اب آتے ہیں اس کتاب پر جس نے ساری دنیا کو حیران کر دیا—”ڈاؤڈی جِنگ”۔ روایت یہی کہتی ہے کہ یہ کتاب لاؤزی نے لکھی، مگر کچھ اسکالرز کا خیال ہے کہ یہ کئی دانشوروں کے خیالات کا مجموعہ ہے، کیونکہ لاؤزی خود اتنے پراسرار تھے کہ لگتا ہے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک دن لاؤزی نے دنیا چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور چپکے سے بارڈر کراس کرنے لگے۔ مگر وہاں کے ایک ہوشیار گارڈ نے انہیں پہچان لیا اور کہا، "حضور، جانے سے پہلے کوئی دانشمندی کی بات تو لکھ کر جائیے!”
لاؤزی نے سر ہلایا، قلم پکڑا، اور جھٹ سے "ڈاؤڈی جِنگ” لکھ ڈالی جیسے کوئی بلاگر آخری وقت میں زبردستی آرٹیکل پورا کر رہا ہو۔
تو جناب، اگر زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ڈاؤ کو فالو کریں، یعنی بہاؤ کے ساتھ چلیں، خواہ مخواہ کی ضد نہ کریں۔ جیسے اگر سگنل پر گاڑی رک جائے تو ہارن بجانے کے بجائے لمحے کو انجوائے کریں، کیونکہ یہی ڈاؤ کا فلسفہ ہے قدرت کے مطابق بہنا، نہ کہ اس کے خلاف جانا!
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔