• Qalam Club English
  • ہمارے ساتھ شامل ہوں
  • ہم سے رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
اتوار, 29 جون, 2025
Qalam Club
  • صفحۂ اول
  • پاکستان
  • انٹرنیشنل
    • چائنہ کی خبریں
  • ہماری خبر
  • کرائم اینڈ کورٹس
  • تقرروتبادلے
  • شوبز
  • دلچسپ و عجیب
  • سائنس اور ٹیکنالوجی
  • صحت و تعلیم
  • کھیل
  • تبصرہ / تجزیہ
  • تاریخ فلسفہ
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • پاکستان
  • انٹرنیشنل
    • چائنہ کی خبریں
  • ہماری خبر
  • کرائم اینڈ کورٹس
  • تقرروتبادلے
  • شوبز
  • دلچسپ و عجیب
  • سائنس اور ٹیکنالوجی
  • صحت و تعلیم
  • کھیل
  • تبصرہ / تجزیہ
  • تاریخ فلسفہ
No Result
View All Result
Qalam Club
No Result
View All Result
Home انٹرنیشنل

تاریخِ فلسفہ – مضمون #2 "ڈاؤ: زندگی کا بہاؤ یا بس ایک فلسفیانہ مذاق؟”

News Editor by News Editor
مارچ 5, 2025
in انٹرنیشنل, تاریخ فلسفہ, تبصرہ / تجزیہ
0 0
0

تحریر : ہراکلیٹس ہراک
یوں تو فلسفہ ایک خشک اور سنجیدہ مضمون سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر اس میں چین کے قدیم دانشوروں کی حکایات شامل کر لی جائیں، تو یہ کسی مارشل آرٹس فلم جتنا دلچسپ ہو جاتا ہے بس جیکی چن اور بروس لی کی لڑائی نکال کر اور کنفیوشس اور لاؤزی کی علمی تلواریں شامل کر کے۔

چین میں ایک زمانہ تھا جب ہر گلی، ہر محفل اور ہر چائے خانے میں نئے خیالات جنم لے رہے تھے، جیسے آج کل سوشل میڈیا پر ہر دوسرا شخص فلسفی بنا بیٹھا ہے۔ اس دور کو "ہنڈریڈ اسکول آف تھاٹ” کہا جاتا ہے، اور یہ کوئی عام اسکول نہیں تھا جہاں صبح کی اسمبلی میں بچوں کو سیدھا کھڑا رہنے کا کہا جاتا تھا۔ یہاں مختلف نظریات، خیالات اور فلسفیانہ مکاتب فکر کا طوفان برپا تھا۔

اب جہاں یونان کے فلسفی بیٹھے کائنات کی گتھیاں سلجھا رہے تھے اور "اصل حقیقت” کی کھوج میں لگے تھے، وہیں چین کے اہلِ دانش عملی سیاست، اخلاقیات اور انسانی رویوں کی گرہیں کھولنے میں مصروف تھے۔ یعنی جہاں سقراط اور افلاطون یہ سوچ رہے تھے کہ "یہ دنیا بنی کیسے؟”، وہیں لاؤزی اور کنفیوشس کا مسئلہ یہ تھا کہ "دنیا چلتی کیسے ہے؟”

چین کے فلسفی لاؤزی (یا لاؤزو، یا لاؤ تسے جو بھی آپ کو آسان لگے) نے ایک زبردست آئیڈیا پیش کیا، جسے "ڈاؤ” کہا جاتا ہے۔ اب ڈاؤ کوئی عام کانسپٹ نہیں بلکہ زندگی کا وہ فلو ہے جس میں سب کچھ قدرتی انداز میں چلتا ہے، جیسے دریاؤں کا بہاؤ، دن کا رات میں بدلنا، یا کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کا سیمی فائنل تک پہنچنا اور وہاں دل توڑ دینا۔ (خیر اس بار تو یہ نوبت بھی نہیں آئی!)

1600 قبل مسیح سے 1045 قبل مسیح تک شینگ خاندان کے لوگ پوری ایمانداری سے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ان کی قسمت دیوتا طے کرتے ہیں، اور وہ اپنے آباؤ اجداد کی پرستش کر کے شاید کوئی "فیور” لینے کی کوشش کرتے تھے۔ گویا اگر پردادا خوش ہو گئے تو کاروبار چمک اٹھے گا، اور اگر ناراض ہو گئے تو کھیتوں میں ٹڈی دل حملہ کر دے گا۔

پھر آیا 1044 قبل مسیح، جب زاؤ خاندان نے اقتدار سنبھالا اور لوگوں کو یہ "سمجھایا” کہ اقتدار تو آسمانی فرمان کے تحت ہی ملتا ہے، یعنی بادشاہ خدا کی مرضی سے ہی بنتے ہیں۔ اب ظاہر ہے، جب بادشاہ خود کہہ رہا ہو کہ اس کی حکومت اوپر والے کی مرضی سے چل رہی ہے، تو رعایا کے پاس ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس دور میں سیاسی فیصلوں کو ہی "خدائی منشا” کا لیبل لگا دیا گیا—یعنی اگر بادشاہ ٹیکس بڑھا دے تو یہ بھی قدرت کا فیصلہ سمجھا جائے، اور اگر رعایا شور مچائے تو اسے بغاوت قرار دے کر سیدھا قید خانے بھیج دیا جائے۔

اسی سیاسی اور نظریاتی "کشتی” کے دوران ڈاؤ مت نے جنم لیا اور چھٹی صدی قبل مسیح میں اپنے فلسفیانہ خیالات کے ساتھ میدان میں آیا۔ تب چین اندرونی جھگڑوں، خانہ جنگیوں اور اقتدار کی "رسہ کشی” میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔ زاؤ خاندان کے نئے منتظمین اور بڑی ریاستی شخصیات نے حکومتی معاملات، تجارت اور سازشوں کو مہارت سے سنبھالا اور درباری سیاست کو ایک "آرٹ” کی شکل دے دی۔ اس دور میں وہی کامیاب تھا جو یا تو درباری چالاکیوں میں ماہر تھا یا پھر اس نے اپنا کوئی الگ فلسفہ بنا لیا تھا، جیسے ڈاؤ مت والوں نے کیا۔

لاؤزی نے کہا کہ "دوسروں کو جاننا ذہانت ہے، لیکن اپنے آپ کو جاننا اصل حکمت ہے۔” یعنی اگر آپ کے پاس وائی فائی کا پاسورڈ ہے، تو آپ ذہین ہیں، لیکن اگر آپ کو معلوم ہے کہ موبائل کے بغیر زندگی گزارنا ممکن ہے، تو آپ واقعی عقلمند ہیں۔

چین کے قدیم دانشور یہ سمجھتے تھے کہ ہر چیز ایک مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ دن رات میں بدلتا ہے، گرمی سردی میں، اور خوشحالی بحران میں—یہ سب ایک قدرتی سائیکل ہے، جو کبھی رکتا نہیں۔ ان کے نزدیک دنیا میں کوئی بھی حالت مستقل نہیں، بلکہ سب کچھ ایک دوسرے سے جُڑا ہوا اور ایک مسلسل بہاؤ میں ہے۔

لاؤزی نے کہا کہ دنیا میں دس ہزار قسم کے مظاہر ہیں (یعنی بے شمار چیزیں) اور ان میں سے انسان بھی ایک ہے، مگر کوئی بھی چیز دوسری سے برتر یا کمتر نہیں۔ یعنی ہم سب "اسپیشل اسٹیٹس” کے بغیر ایک قدرتی ترتیب کا حصہ ہیں۔

لیکن پھر مسئلہ کہاں آتا ہے؟ مسئلہ تب آتا ہے جب ہم اپنی خواہشات اور ضد کے ذریعے قدرت کے اس بہاؤ میں مداخلت کرتے ہیں۔ جیسے کہ فطرت نے ہمیں متوازن زندگی گزارنے کے لیے بنایا، مگر ہم رات 3 بجے تک سکرولنگ کرتے رہتے ہیں اور پھر صبح الارم بجنے پر قسمت کو کوستے ہیں۔

لاؤزی کے مطابق، اصل نیک زندگی وہ ہے جس میں ہم قدرت کے اصولوں کے مطابق چلیں زبردستی نہیں بلکہ خودبخود۔اب آتے ہیں اس کتاب پر جس نے ساری دنیا کو حیران کر دیا—”ڈاؤڈی جِنگ”۔ روایت یہی کہتی ہے کہ یہ کتاب لاؤزی نے لکھی، مگر کچھ اسکالرز کا خیال ہے کہ یہ کئی دانشوروں کے خیالات کا مجموعہ ہے، کیونکہ لاؤزی خود اتنے پراسرار تھے کہ لگتا ہے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک دن لاؤزی نے دنیا چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور چپکے سے بارڈر کراس کرنے لگے۔ مگر وہاں کے ایک ہوشیار گارڈ نے انہیں پہچان لیا اور کہا، "حضور، جانے سے پہلے کوئی دانشمندی کی بات تو لکھ کر جائیے!”
لاؤزی نے سر ہلایا، قلم پکڑا، اور جھٹ سے "ڈاؤڈی جِنگ” لکھ ڈالی جیسے کوئی بلاگر آخری وقت میں زبردستی آرٹیکل پورا کر رہا ہو۔

تو جناب، اگر زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ڈاؤ کو فالو کریں، یعنی بہاؤ کے ساتھ چلیں، خواہ مخواہ کی ضد نہ کریں۔ جیسے اگر سگنل پر گاڑی رک جائے تو ہارن بجانے کے بجائے لمحے کو انجوائے کریں، کیونکہ یہی ڈاؤ کا فلسفہ ہے قدرت کے مطابق بہنا، نہ کہ اس کے خلاف جانا!
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔

Share this:

  • Click to share on Twitter (Opens in new window)
  • Click to share on Facebook (Opens in new window)
  • Click to share on WhatsApp (Opens in new window)

Related

Tags: تاریخ_فلسفہچین_کی_دانشحکمتڈاؤ_ازمزندگی_کا_بہاؤقدرت_کا_اصولقدیم_دانشکنفیوشسلاؤزیہنڈریڈ_اسکول_آف_تھاٹ
Previous Post

دیپیکا ککڑاور شعیب ابراہیم نے طلاق کی افواہوں پر خاموشی توڑ دی

Next Post

پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر ٹیکسز کی تعداد ،شرح کم کرنے کا تجربہ کیا جائے ' لاہور ٹیکس بار

News Editor

News Editor

Next Post
لاہور ٹیکس بار

پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر ٹیکسز کی تعداد ،شرح کم کرنے کا تجربہ کیا جائے ' لاہور ٹیکس بار

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ خبریں

رافیل گروسی

ایران اب بھی چند ماہ میں افزودہ یورینیم تیار کر سکتا ہے، آئی اے ای اے

جون 29, 2025
اولمپکس

چائنا میڈیا گروپ نے میلان سرمائی اولمپکس کے لئے نشریاتی حقوق حاصل کر لئے

جون 29, 2025
ترجمان

اپنے اصولی موقف کا مضبوطی سے دفاع کرکے ہی ہم اپنے جائز حقوق و مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں، چینی وزارت تجارت

جون 29, 2025
  • Trending
  • Comments
  • Latest
ایف آئی اے

ایف آئی اے میں بھرتیوں کا اعلان

جون 1, 2024

سی ٹی ڈی پنجاب میں نوکری حاصل کریں،آخری تاریخ 18 اپریل

اپریل 17, 2020

پنجاب پولیس میں 318 انسپکٹر لیگل کی سیٹوں کا اعلان کردیا گیا

اپریل 19, 2020

حسا س ادارے کی کاروائی، اسلام آباد میں متنازعہ بینرزلگانے والے ملزمان گرفتار

اگست 7, 2019
وسطی ایشیا

چین اور قازقستان وزرائے خارجہ کاکثیر الجہتی تعاون کا اعادہ دونوں فر یقین کا یکطرفہ تحفظ پسندی کی مخالفت کر نے پر اتفاق

2
کراچی

کراچی، میٹرک کے سالانہ عملی امتحانات کی تاریخوں کا اعلان کردیا گیا

2

معشوقہ کابیوی بن کر ون فائیو پر فون، لڑکے کو نکاح سے پہلے گرفتار کرا دیا

1

پی سی بی بھی ہمدرد بن گیا، کورونا ریلیف فنڈ میں ایک کروڑ سے زائد رقم عطیہ کردی

1
رافیل گروسی

ایران اب بھی چند ماہ میں افزودہ یورینیم تیار کر سکتا ہے، آئی اے ای اے

جون 29, 2025
اولمپکس

چائنا میڈیا گروپ نے میلان سرمائی اولمپکس کے لئے نشریاتی حقوق حاصل کر لئے

جون 29, 2025
ترجمان

اپنے اصولی موقف کا مضبوطی سے دفاع کرکے ہی ہم اپنے جائز حقوق و مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں، چینی وزارت تجارت

جون 29, 2025
لاجسٹکس

چین کی لاجسٹکس انڈسٹری کی کل آمدنی 5.6 ٹریلین یوآن تک پہنچ گئی

جون 29, 2025
Qalam Club

دورجدید میں سوشل میڈیاایک بااعتباراورقابل بھروسہ پلیٹ فارم کے طورپراپنی مستحکم جگہ بنا چکا ہے۔ مگر افسوس کہ چند افراد ذاتی مقاصد کےلیےجھوٹی، بےبنیاد یاچوری شدہ خبریں پوسٹ کرکےاس کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ ایسےعناصر کےخلاف جہاد کےطورپر" قلم کلب" کا آغازکیاجارہاہے۔ یہ ادارہ باصلاحیت اورتجربہ کارصحافیوں کاواحد پلیٹ فارم ہےجہاں مصدقہ خبریں، بے لاگ تبصرے اوربامعنی مضامین انتہائی نیک نیتی کےساتھ شائع کیے جاتے ہیں۔ ہمارے دروازےان تمام غیرجانبداردوستوں کےلیےکھلےہیں جوحقائق کومنظرعام پرلا کرمعاشرے میں سدھارلانا چاہتے ہیں۔

نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے"قلم کلب"کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔

  • ہمارے ساتھ شامل ہوں
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ کریں
  • رازداری کی پالیسی
  • شرائط و ضوابط
  • ضابطہ اخلاق

QALAM CLUB © 2019 - Reproduction of the website's content without express written permission from "Qalam Club" is strictly prohibited

قلم کلب © 2019 - تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں.

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • پاکستان
  • انٹرنیشنل
    • چائنہ کی خبریں
  • ہماری خبر
  • کرائم اینڈ کورٹس
  • تقرروتبادلے
  • شوبز
  • دلچسپ و عجیب
  • سائنس اور ٹیکنالوجی
  • صحت و تعلیم
  • کھیل
  • تبصرہ / تجزیہ
  • تاریخ فلسفہ

قلم کلب © 2019 - تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں.

Login to your account below

Forgotten Password?

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Discover more from Qalam Club

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue Reading