تحریر : ہراکلیٹس ہراک
تھیلز آف ملیٹس، نام تو سنا ہوگا! اگر نہیں سنا تو کوئی بات نہیں، ہمارے ہاں ویسے بھی فلسفے کا اتنا رواج نہیں، خاص طور پر اگر وہ فلسفہ کوئی ایسا بندہ پیش کرے جو خدا، دیوتاؤں اور مافوق الفطرت طاقتوں کو منطق اور سائنس سے زیادہ اہمیت دیتا ہو۔ تھیلز یونانی فلسفے کا پہلا بڑا مفکر تھا، جو 624 قبل مسیح میں پیدا ہوا اور اس کا تعلق آج کے ترکی میں واقع ایونیا کے شہر ملیٹس سے تھا۔ اس کی شہرت کا آغاز اس وقت ہوا جب اس نے اعلان کیا کہ دنیا کی اصل بنیاد پانی ہے ۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا بیان دینے کے لیے یا تو بندہ بہت پیاسا ہونا چاہیے یا پھر نہانے دھونے کا شوقین، لیکن نہیں جناب! اس کے پیچھے اس کی ٹھوس عقلی دلیل تھی۔ اس نے دیکھا کہ ہر جاندار کے لیے پانی ضروری ہے، یہ حرکت بھی کرتا ہے اور مختلف اشکال میں بدل بھی سکتا ہے۔ یعنی تھیلز کے نزدیک پانی ایک ایسا عنصر تھا جس میں زندگی کی تمام بنیادی خصوصیات موجود تھیں۔
اب، اس وقت کے سیانے لوگ جو کسی نہ کسی دیوتا کے کہنے پر ہر کام کرتے تھے، ان کے لیے یہ ایک انہونی بات تھی۔ بھئی، کائنات کے راز جاننا تو دیوتاؤں کا حق تھا، یہ کوئی انسان کیسے جان سکتا ہے؟ لیکن تھیلز نے نہ صرف یہ دعویٰ کیا بلکہ 585 قبل مسیح میں سورج گرہن کی پیش گوئی بھی کر ڈالی، جو حیرت انگیز طور پر درست ثابت ہوئی۔ یعنی جن لوگوں کو لگتا تھا کہ سورج اور چاند کسی دیوتا کی ذاتی جاگیر ہیں، ان کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا۔
لیکن تھیلز صرف فلسفی نہیں تھا، وہ ایک بہترین تاجر بھی تھا۔ ایک بار اس نے اندازہ لگایا کہ زیتون کی پیداوار زبردست ہوگی، فوراً زیتون کے تیل کے کارخانے بُک کروا لیے اور جب فصل آئی تو اچھے خاصے دام کما لیے۔ یعنی صرف تھیوری نہیں، پریکٹیکل بزنس سینس بھی رکھتا تھا۔ ارسطو نے بھی اپنی کتاب "سیاست” میں اسے نہ صرف فلسفی بلکہ ایک ذہین کاروباری شخص کہا ہے۔
تھیلز کا ایک اور کارنامہ جیومیٹری میں تھا۔ اس نے مصر جا کر جیومیٹری سیکھی اور بعد میں اس سے کچھ دلچسپ اصول اخذ کیے، جیسے اگر کسی مثلث کا ایک زاویہ 90 ڈگری کا ہو، تو باقی دونوں زاویے ایک دوسرے کے مطابق ہوں گے۔ آج بھی جو بچے حساب سے تنگ آ کر کیلکولیٹر اٹھاتے ہیں، وہ دراصل تھیلز کی ہی وجہ سے ہیں، کیونکہ اسی نے ریاضی کو منطق اور مشاہدے کا حصہ بنایا۔
تھیلز کے شاگرد بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ انکسی مینڈر نے کہا کہ نہیں بھئی، پانی نہیں بلکہ "لامتناہی” دنیا کی اصل بنیاد ہے، اور انکسی مینِس نے اعلان کر دیا کہ سب کچھ دراصل ہوا سے بنا ہے۔ مطلب یہ کہ تھیلز کے نظریے نے ایک فکری زنجیر شروع کی، جس نے آگے چل کر فلسفے اور سائنس کی دنیا ہی بدل دی۔
برٹرینڈ رسل نے اپنی کتاب "مغربی فلسفے کی تاریخ” میں تھیلز کو پہلا سائنسدان-فلسفی قرار دیا، جبکہ ویل بکنگھم نے "فلسفے کی کتاب” میں اس کے نظریات پر روشنی ڈالی۔ ارسطو نے "میٹافزکس” میں اس کا ذکر کیا اور "سیاست” میں اسے ایک کامیاب تاجر کے طور پر بھی سراہا۔ دیوجینس لأرتیوس نے "مشاہیرِ فلسفیوں کی زندگیاں اور آراء” میں اس کی تفصیل سے سوانح لکھی۔
اب سوال یہ ہے کہ اس سب کا آج کے دور میں کیا فائدہ؟ جناب، تھیلز کی اصل اہمیت یہ نہیں کہ وہ پانی کو دنیا کی بنیاد سمجھتا تھا، بلکہ یہ کہ وہ سب سے پہلا شخص تھا جس نے عقل، منطق اور تجربے کی بنیاد پر چیزوں کو پرکھنے کی کوشش کی۔ آج جب ہم کسی بھی سائنسی دریافت، کسی بھی ریاضیاتی اصول، یا کسی بھی منطقی بحث کا حصہ بنتے ہیں، تو اس کی جڑیں اسی قدیم فلسفے میں جاتی ہیں جس کی بنیاد تھیلز نے رکھی تھی۔یہاں تک کہ جدید سائنسدان بھی اس کے طریقہ کار سے متفق ہیں۔ ہاں، آج ہم جانتے ہیں کہ دنیا صرف پانی سے نہیں بنی، بلکہ ایٹمز اور توانائی کے اصول اس کی بنیاد ہیں۔ لیکن تھیلز کا استدلال کہ کوئی ایک بنیادی عنصر تمام اشیاء کی جڑ ہے، جدید طبیعیات سے کافی حد تک میل کھاتا ہے۔
اگر کبھی آپ کسی سائنسی حقیقت پر غور کریں، کسی نئی دریافت پر حیران ہوں، یا پھر بارش ہوتے دیکھ کر کسی دیوی کی مہربانی کے بجائے موسمیات کی رپورٹ پر توجہ دیں، تو سمجھ لیں کہ آپ بھی تھیلز کے فلسفے کی روشنی میں چل رہے ہیں۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے اس چراغ کو جلایا، جس نے بعد میں سائنس، منطق اور ریاضی کے راستے روشن کیے۔
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔
حوالہ جات:
1. Aristotle, "Metaphysics,” Book I, 983b-984a.
2. Aristotle, "Politics,” Book I, 1259a.
3. Diogenes Laërtius, "Lives and Opinions of Eminent Philosophers,” Book I, 22-42.
4. Bertrand Russell, "A History of Western Philosophy.”
5. Will Buckingham, "The Philosophy Book.”