فکرِ انسانی کی اولین کرن
تحریر: ہراکلیٹس ہراک
آپ سب لوگوں کی بھرپور فرمائش کے بعد آخر کار یہ سفر آج سے شروع ہوا چاہتا ہے امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میں آپ کے ساتھ فلسفے کے ایک دلچسپ اور فکری سفر کا آغاز کرنے جا رہا ہوں، جس کا مقصد نہ صرف فلسفے کی تاریخ کو بیان کرنا ہے بلکہ یہ بھی دکھانا ہے کہ آج کے دور میں فلسفہ کیوں ضروری ہے۔
اکثر احباب مجھ سے پوچھتے ہیں کہ فلسفہ سیکھنے کے لیے کن کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سوال کا کوئی مختصر جواب نہیں، کیونکہ فلسفہ محض ایک مضمون نہیں، بلکہ ایک عمیق سوچنے کا طریقہ ہے، جس کی جڑیں ہزاروں سال پیچھے جاتی ہیں۔ اسی لیے میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ فلسفے کی ابتدا سے لے کر جدید دور کے فلسفیوں تک سب پر سادہ زبان میں لکھا جائے، تاکہ وہ لوگ بھی اس سے مستفید ہو سکیں جو رسمی طور پر فلسفہ نہیں پڑھتے، لیکن اس میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
فلسفے کی تاریخ کا آغاز اس وقت ہوا جب ابتدائی تہذیبوں کے لوگ اپنی دنیا کو سمجھنے کے لیے مذہب اور روایات پر انحصار کرتے تھے۔ زندگی کے بنیادی سوالات—ہم کون ہیں؟ دنیا کیسے بنی؟ نیکی اور بدی کی حقیقت کیا ہے؟—یہ سب سوالات مذہبی عقائد کی روشنی میں دیکھے جاتے تھے۔ لیکن کچھ ذہین اور متجسس دماغ ایسے بھی تھے جنہوں نے ان روایتی جوابات پر اکتفا نہیں کیا۔ انہوں نے سوچا کہ کیا سچائی کو محض ایمان کی بنیاد پر تسلیم کرنا کافی ہے، یا کیا اسے عقل اور تجربے کی روشنی میں بھی جانچنا چاہیے؟
یہیں سے فلسفے کی بنیاد پڑی۔ اور سب سے پہلا نام جسے فلسفے کی دنیا میں اولین مقام حاصل ہے، وہ تھیلیز آف مائیلیٹس ہے، جو چھٹی صدی قبل مسیح میں یونان کے شہر مائیلیٹس میں پیدا ہوا۔ تھیلیز نے قدرتی دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے دیوتاؤں پر انحصار کرنے کے بجائے عقل کا راستہ اپنایا۔ اس نے ایک نہایت سادہ لیکن انقلابی سوال کیا: "یہ دنیا کس چیز سے بنی ہے؟” اس سوال نے انسانی سوچ میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کی۔
اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ دنیا دیوتاؤں کی مرضی سے بنی ہے، لیکن تھیلیز نے یہ نظریہ پیش کیا کہ دنیا کی تخلیق کو کسی عقلی اصول کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ اس نے دلیل دی کہ تمام چیزوں کی اصل پانی ہے، کیونکہ پانی مختلف اشکال میں تبدیل ہو سکتا ہے اور زندگی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ اس کا یہ نظریہ جدید سائنسی معلومات کے مطابق درست نہیں تھا، مگر اہم بات یہ تھی کہ اس نے دنیا کو سمجھنے کے لیے مذہب کے بجائے عقل کا استعمال کیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب انسانی فکر مذہب کے دائرے سے نکل کر سائنسی اور فلسفیانہ بنیادوں پر کھڑی ہونے لگی۔
یہی طریقہ آگے چل کر سائنس اور فلسفے دونوں کی بنیاد بنا۔ تھیلیز کی اس سوچ نے سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے عظیم فلسفیوں کی راہ ہموار کی، جنہوں نے انسانی فکر کو مزید وسعت دی۔
یہ پہلا مضمون درحقیقت اس فکری سفر کی ابتدا ہے۔ آئندہ مضامین میں ہم سقراط، افلاطون، ارسطو، کانٹ، ہیگل، ڈیکارٹ، ڈیریڈا، نطشے، مارکس، ویٹگنسٹائن اور زیزک جیسے عظیم فلسفیوں کی فکر اور ان کے نظریات کو سادہ زبان میں بیان کریں گے، تاکہ ہر شخص فلسفے کی پیچیدگیوں کو سمجھے بغیر بھی اس سے لطف اندوز ہو سکے۔
آپ کی آرا اور خیالات کا منتظر رہوں گا۔ امید ہے کہ یہ علمی سلسلہ آپ کے لیے دلچسپ ثابت ہوگا۔
نیک تمناؤں کے ساتھ،
ہراکلیٹس ہراک