پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین، سابق وزیر خارجہ اور پاکستانی سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر خطے میں امن قائم کرنے کے لیے امریکہ کو بھارت کو "کان سے پکڑ کر” مذاکرات کی میز پر لانا پڑے، تو وہ یہ قدم اٹھائے گا کیونکہ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہوگا۔
لندن میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا واضح الفاظ میں یہ مؤقف اپنایا ہے کہ جنوبی ایشیا میں قیام امن ضروری ہے۔ "ہم صدر ٹرمپ کے بیانات کو محض سیاسی بیانات نہیں بلکہ عملی وعدے سمجھتے ہیں،” انہوں نے کہا۔
بلاول کا کہنا تھا کہ بھارت مسلسل امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے، خاص طور پر مسئلہ کشمیر کو دبانے کے لیے۔ "ہم سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ کو بھارت کو بات چیت پر مجبور کرنا پڑے تو یہ عمل دنیا کے امن کے لیے سودمند ثابت ہوگا تاکہ خطے کے ممالک ترقی اور استحکام کی جانب بڑھ سکیں۔”
انہوں نے کہا کہ بھارت نے حالیہ برسوں میں کشمیر پر متنازع قوانین پاس کر کے اسے اپنا داخلی معاملہ قرار دیا، لیکن صدر ٹرمپ کے بیانات نے اس مسئلے کو دوبارہ عالمی سطح پر زندہ کر دیا ہے۔
سابق وزیر خارجہ نے مزید کہا، "صدر ٹرمپ کا یہ اعتراف کہ کشمیر ایک بین الاقوامی تنازع ہے، اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ محض بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں ان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئیں جنہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اب مسئلہ کشمیر پر بات کرنا زیادہ مؤثر اور ممکن ہو چکا ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا اور ہمیشہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کا خواہاں رہا ہے۔ "کشمیر، دہشتگردی، پانی سمیت تمام معاملات صرف اور صرف بات چیت سے حل ہو سکتے ہیں کیونکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔”
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان نے ہمیشہ سیزفائر کی پاسداری کی ہے، جبکہ بھارت کا مؤقف محض جھوٹ پر مبنی بیانیہ رہا ہے۔