امریکی سیاست: جمہوریت سے آمریت کی جانب؟ – فرانسس فوکویاما کی نئی تشویش
تحریر: کاشف جاوید
فرانسس فوکویاما کی مشہور کتاب "The End of History and the Last Man” (1992) میں یہ نظریہ پیش کیا گیا تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری ہی وہ آخری منزلیں ہیں جن پر انسانی تاریخ کی پیش قدمی مکمل ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق، دنیا میں کوئی دوسرا نظام ان اصولوں کا متبادل نہیں بن سکتا اور یوں "تاریخ کا خاتمہ” ہو چکا ہے۔
لیکن حالیہ دنوں میں فوکویاما نے اپنے ایک انٹرویو میں ایک مختلف نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ ان کے بقول، امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں نہ صرف ایک غیر منصفانہ انتخاب کی طرف جا رہا ہے بلکہ وہ جابرانہ طرزِ حکومت کے حامی عالمی رہنماؤں کی طرف جھکاؤ رکھ رہا ہے، جیسے کہ ولادیمیر پوتن، وکٹر اوربان، اور نریندر مودی۔ فوکویاما کا یہ بیان اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ میں جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بنتے ہیں تو امریکہ ایک آمرانہ طرزِ حکومت کی طرف جا سکتا ہے۔
اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن چکے ہیں، ان کی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان کے خیالات نیٹو کے بارے میں ہمیشہ سے مشکوک رہے ہیں۔ وہ نیٹو کو ایک "فرسودہ” ادارہ قرار دے چکے ہیں اور ان کا نعرہ "Make America Great Again” اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ امریکی مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہیں، چاہے اس کے لیے بین الاقوامی اتحادوں کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچے۔
حالیہ سیاسی حالات میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ انتظامیہ نہ صرف روس نواز پالیسیوں کی جانب مائل نظر آتی ہے بلکہ مجموعی طور پر ایک سخت گیر دائیں بازو (Right Wing) کی سیاست کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کا ثبوت حالیہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کے اقدامات سے بھی ملتا ہے، جنہوں نے یوکرین تنازع پر نہ تو نیٹو کو اعتماد میں لیا، نہ یوکرینی حکومت کو، بلکہ براہ راست روسی قیادت کے ساتھ امن مذاکرات کی کوشش کی۔ اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے بغیر نیٹو اور یوکرین کو اعتماد میں لیے روس کے ساتھ امن مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ مزید برآں، یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی نے بھی عندیہ دیا ہے کہ اگر امن کے لیے ضروری ہوا تو وہ مستعفی ہونے کے لیے تیار ہیں۔
یہ تمام عوامل اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تاریخ ایک مستقل تغیر پذیر عمل ہے اور کوئی بھی نظریہ یا فلسفیانہ پیش گوئی اسے مستقل طور پر منجمد نہیں کر سکتی۔ تاریخ ہمیشہ آگے بڑھتی ہے اور موجودہ عالمی سیاسی منظرنامہ اس حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
نوٹ:
یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔ اس میں پیش کیے گئے خیالات اور تجزیے سے ادارے (قلم کلب ڈاٹ کام) کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے.