جیسے جیسے ٹرمپ انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جنگی کارروائیوں میں گہرے کردار کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، ویسے ہی واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے باہر شہریوں کی ایک بڑی تعداد احتجاج کے لیے جمع ہو گئی۔ مظاہرین نے امریکی حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع میں عسکری شمولیت سے باز رہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، مظاہرین نے ایران کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے امریکا کی جانب سے اسرائیل کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی عسکری امداد پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
مظاہرین نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ امریکا اس تنازعے میں براہ راست فوجی مداخلت نہ کرے، کیونکہ ایسا اقدام مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کو مزید بڑھا سکتا ہے اور عالمی سطح پر خطرات پیدا کر سکتا ہے۔
احتجاجی مظاہرے کے دوران مظاہرین نے مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر نعرے درج تھے جیسے:
"No War with Iran”, "Stop Funding War Crimes”, "Diplomacy Not Bombs”۔
رپورٹس کے مطابق، اس وقت امریکا کے تین طیارہ بردار جنگی بیڑے مشرق وسطیٰ کے سمندری علاقے میں تعینات ہیں، جن کے بارے میں مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ صرف دفاعی مقاصد کے لیے موجود ہونے چاہئیں، اور انہیں کسی جارحانہ کارروائی کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
سول سوسائٹی کے حلقوں اور امن کے فروغ کے لیے کام کرنے والے گروپوں نے بھی اس مظاہرے کی حمایت کی ہے، اور حکومت پر زور دیا ہے کہ سفارتی ذرائع اختیار کیے جائیں تاکہ خطے میں پائیدار امن ممکن بنایا جا سکے۔
مظاہرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل کی ایران پر حالیہ کارروائی نے دنیا کو ایک خطرناک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے، اور امریکا کی براہ راست مداخلت صورتحال کو غیر متوقع اور مہلک جنگ میں تبدیل کر سکتی ہے۔