
آ ل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن،پاکستان گرل گائیڈز اینڈ بوائز سکاؤٹس ایسوسیی ایشن،لاہور سکول سسٹم اورنقیبزکنسلٹینگ کے زیر اہتمام’تقریب ری لانچ گرل گائیڈز اینڈ بوائز سکاؤٹس’منعقد ہوئی۔تقریب کی صدارت گور نر پنجاب چوھدری محمد سرور اور گور نر پنجاب کی اہلیہ و گر لز گائیڈ زایسوسی ایشن پنجاب کی صدربیگم پروین سرور نے کی۔گور نر پنجاب اوراہلیہ گورنربیگم پروین سرور نے کہاکہ گرل گائیڈز اینڈ بوائز سکاؤٹس نہ صرف تحریک ہے بلکہ علم شعور ہنر مندی اورصحت عامہ کی فراہمی اور تمام علوم کے متعلق آگاہی کا نام ہے۔قائداعظم محمدعلی جناح نے اس تحریک کی بنیاد رکھی آج ہم سبکی ذمہ داری ہے کہ ہم اس مشن کو کامیابی کیساتھ آگے لیکر چلیں اورانشاء ہم خود بھی اس مہم میں سب سےآگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں گے۔اس موقع پرگور نر پنجاب اوراہلیہ گورنربیگم پروین سرور نے نجی تعلیمی اداروں اورآل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کی تعلیمی خدمات اور ناگزیرکردار کو سراہاتے ہوے خراج تحسین پیش کیااور کہا کہ نجی شعبہ تعلیم کے میدان میں گراں قدر خدمات سر انجام دے رہا ہےاورحکومت انکی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ بطورصدرآل پاکستان پرائیویٹ سکولزفیڈریشن میں نے خطاب میں کہا کہ لاہور سمیت پنجاب بھر کے سکولز میں گور نر پنجاب محترم چوھدری محمد سروراور گور نر پنجاب کی اہلیہ و گر لز گائیڈز ایسوسی ایشن پنجاب کی صدر محترمہ بیگم پروین سرور کی قیادت میں از سر نو 20000 گرلز گائیڈز اینڈبوائز سکاؤٹس کی رجسٹریشن اور ممبرشپ کے فروغ کیلئے باقاعدہ مہم شروع کی جائیگی اورمہم کے دوران لڑ کیوں اورلڑکوں کوایسے مواقعے فراہم کر یں گے جسکے ذریعے وہ پاکستان کے پراعتماد،محب وطن اور قانون پر عملددرآمد کرنیوالے شہری بن سکیں گےاور نظریہ پاکستان کے مطابق معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکے گی۔دیگرخطاب کرنے والوں میں چیئرمین لاہور سکول سسٹم مرزا حسنین عباس، چیئرمین یونیورسٹی آف لاہور اویس رؤف، VCیونیورسٹی آف ایجوکیشن رؤف اعظم،VC یونیورسٹی آف ساوتھ ایشیامیاں عمران مسعود، ثروت شجاعت،بلال حنیف،معظم شہباز،سلمیٰ سجاد,روبینہ ندیم،DG نیوٹیک، شاہدنور،رانا طاہرسلیم، شاہد امبروز مغل،عاطف مرزااور دیگرشامل تھے۔تقریب کے آخر میں اعلی تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے پرائیویٹ سکولز مالکان و اساتذہ کو حسن کارکردگی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
وطن عزیز میں اس وقت 131000سرکاری اور 203800نجی سکولز میں 4کروڑ سے ذائد طلباء ان تعلیمی اداروں میں زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔131000سرکاری سکولز میں اساتذہ کی تعداد لگ بھگ 7لاکھ اور 203800نجی سکولز میں یہ تعداد لگ بھگ15لاکھ سے تجاوز ہے۔بدقسمت سے آج ان تعلیمی اداروں میں مکمل زور نمبر گیم پر ہےاور تربیت کا لازمی جزو مسلسل نذر انداز ہو رہا ہے۔آج کی تعلیم تربیت کے میدان میں بالکل کوری نظر آتی ہے۔طلباء صرف نظریات پڑھ کر عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں،اور عملی میدان میں بالکل اناڑی ہوتا ہے۔تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر تربیت بھی تعلیم کا حصہ ہے جسکے بغیر تعلیم کا مقصدادھورارہ جاتا ہے،اس لیے تعلیم کے ساتھ مناسب عمر میں تربیت دینا ضروری ہے۔اس حوالے سے اسکاؤٹنگ یا اسکاؤٹ موومنٹ ایک تحریک جو ذہنی و جسمانی ترقی میں نوجوانوں کی مدد کرتی ہے تاکہ معاشرےمیں افراد کی باہمی بقاء کے لیے مضبوط تعمیری کردار ادا کر سکیں۔
20 ویں صدی کے اوائل میں اس تحریک کی شروعات ہوئی،سب سے پہلے عمر کے حساب سے لڑکوں کے تین گروپ Cub Scout, Boy Scout, Rover Scoutبنائے گئے اور پھر 1910 ء میں لڑکیوں کے لیے اسکاؤٹنگ کی ایک تنظیم قائم کی گئی،جس میں مختلف گروپ Brownie Guide, Girl Guide and Girl Scout, Ranger Guideشامل تھے۔1906 اور 1907میں برطانوی فوج میں شامل لیفٹیننٹ جنرل رابرٹ بیڈن پاول نے جاسوسی اوراسکاؤٹنگ پرایک کتاب لکھی۔یہ کتابScouting for Boys اسکی پچھلی کتابوں جو کہ فوجی اسکاؤٹنگ پر مبنی تھیں پرانحصار کرتی تھی۔1907 میں موسم گرما میں برطانیہ میں براؤن سی جزیرہ پر رابرٹ بیڈن پاول نے ایک کیمپ منعقد کیا۔اس کیمپ اور کتاب Scouting for Boys کو اس تحریک کے آغاز کے طور پر جانا جاتا ہے۔بعدازاں امریکی ماڈل کی کتاب Boy Scout Handbookکی بنیاد بنی۔اس کتاب کی اشاعت کے بعد بوائز اسکاؤٹنگ تحریک نے خود کوبڑی تیزی سے پوری برطانوی سلطنت میں منظم کیا۔ 1908ء تک اسکاؤٹنگ جبرالٹر، مالٹا ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ میں قائم ہو چکی تھی، لیکن 1909ء میں چلی، برطانیہ کی سلطنت سے باہر وہ واحد ملک تھا جہاں پہلا اسکاؤٹنگ کا ادارہ بیڈن پاول کے نام سے قائم ہوا۔1909میں لندن میں کرسٹل محل میں منعقد ہونے والی اسکاؤٹنگ کی پہلی ریلی نے 10,000کے قریب لڑکے لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔1910ء میں ارجنٹینا، ڈنمارک ، فن لینڈ، فرانس، جرمنی ،ہندوستان ، ملائشیا، میکسیکو، نیدر لینڈ ، ناروے ، روس،سویڈن اور امریکہ میں اسکاؤٹس موجود تھے۔
1910ء کے آخر تک کیوب سکاؤٹ اور روور سکاؤٹ کے پروگرام شروع ہو چکے تھے،جنہوں نےاسوقت تک اپنے ملک میں آزادانہ طور پر کام کیا جب تک انکو اسکاؤٹنگ کی سرکاری تنظیم سے شناخت نہ مل گئی۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں کیوب اسکاؤٹنگ کے پروگرام 1911 ء میں شروع ہوگئے تھے لیکن انکو سرکاری شناخت 1930ء میں ملی۔اُس زمانہ میں لڑکیاں بھی اس تحریک کا حصہ بننا چاہتی تھیں،لہذا بیڈن پاول اوراسکی بہن ایگنس بڈین پاول نے مل کر گرل گائیڈ کو 1910ء کے اوائل میں متعارف کروایا۔اسکاؤٹنگ کو بین الاقوامی سطح پر دو علامتوں سےجاناجاتاہے۔ٹریفولtrefoil علامت جسے ورلڈ ایسوسی ایشن آف گرل گائیڈاور گرل سکاؤٹ WAGGGS کےممبر لوگ استعمال کرتے ہیں۔حال ہی میں امریکہ میں بوائے سکاؤٹ نے لڑکیوں کو اسکاؤٹنگ ممبر بننے کی اجازت دی ہے۔2010ء میں دنیا بھر کے 216 ممالک میں تقریباً 3 کروڑ20 لاکھ کےقریب رجسٹرڈ سکاؤٹ اور 1 کروڑ کے قریب رجسٹرڈ گائیڈز تھے۔2008 ءمیں دنیابھر میں تقریباً 539 اسکاؤٹنگ کی آزاد تنظیمیں تھیں جو WAGGGS یا WOSM کی ممبر تھیں۔90قومی تنظیموں نے اپنی بین الاقوامی تنظیمیں بنائیں۔
پاکستان میں اسکاؤٹنگ برطانوی ہندوستان کی اسکاؤٹنگ ایسوسی ایشن کی برانچ کے طور پرشروع ہوئی۔ پاکستان بوائے سکاؤٹ ایسوسی ایشن1947 ء میں قائم ہوئی جس نے برطانیہ سے آزادی کے بعد 1948 میں بین الاقوامی تنظیم World Organization of the Scout Movement (WOSM سے الحاق کیا۔ پاکستان بوائے سکاؤٹ ایسوسی ایشن پاکستان کی قومی سکاؤٹ کی تنظیم ہے جسکے تقریباً 5 لاکھ 56ہزار 600سوکے قریب ممبرز ہیں۔پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے اسکاؤٹنگ کے بارے میں کہا تھا کہ اسکاؤٹنگ ہمارے نوجوانوں کے کردار کے تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ انکی ذہنی،جسمانی اور روحانی نشوونما میں فروغ،نظم و ضبط اوراچھا شہری بننے میں مفید ہو سکتا ہے۔اسکاؤٹنگ مشرقی اورمغربی پاکستان میں بوائز سکاؤٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے حصے کے طو ر پر کام کرتی رہی جب تک 1971ء میں پاکستان دوحصوں میں تقسیم نہ ہو گیا۔اسکاؤٹنگ کی تحریک، پاکستان میں 1959ء کے آرٹیکل نمبر XLIII جو پاکستان بوائز سکاؤٹ ایسو سی ایشن کا قانون بھی کہلاتا ہے۔ستمبر 2007 ءسے اسکاؤٹنگ کو سکولوں میں لازمی قرار دے دیا گیا۔اسکامقصد تھا کہ 10 لاکھ نوجوان رضا کاروں کو ایمرجنسی میں دوسروں کی مدد کے لیے تیار کیا جائے۔امتحانی بورڈ کی طرف سے حاصل شدہ فیس کا 2 فیصد مختلف اسکاؤٹنگ اور رہائشی تنظیموں کو ادا کیا جاتا تھا۔پاکستان میں اسکاؤٹنگ عملی طور پر صوبائی سطح پر منظم کی جاتی ہے۔ چھوٹی سطح پر اسکو منظم کرنے کا مقصد قوانین کو اچھے سے لاگو کرنا ہے۔گرل گائیڈز اورپاکستان بوائز سکاؤٹ ایسو سی ایشن نے اسے 10 صوبائی تنظیموں میں تقسیم کیا ہے۔
روائتی اسکاؤٹنگ میں سب سے اہم چیز بیڈن پاول کی فوجی تربیت اور تعلیم میں تجربہ تھے۔اسکاؤٹنگ کا نام پرانے وقت میں جنگوں میں موجود فوجی جوانوں سے متاثر ہو کر رکھا گیا۔سب سے پہلے بیڈن پاول نے یہ نام فوجی جوانوں کی تربیت کے لئے لکھی گئی کتاب ” Aids To Scouting ” میں استعمال کیا کیوں کہ اس نے برطانوی فوج کی تربیت میں فیصلہ سازی ، خود اعتمادی اور مشاہداتی صلاحیتوں کی ضرورتوں کو محسوس کیا۔دنیا میں ہر تین اسکاؤٹس میں سے ایک مسلم ہے۔اسکاؤٹنگ کے طریقہ کار میں غیر رسمی تعلیم کے پروگرام اور عملی سرگرمیوں پر زور دینا جس میںکیمپنگ، پیدل سفر، بیگ پیکنگ اور کھیل وغیرہ شامل ہیں۔ اسکاؤٹس کی ایک اور پہچان اسکی یونیفارم ہے جو کسی بھی ملک یا معاشرے میں موجود تفرقات کو چھپاتے ہوئے اپنی پہچان کواسکارف،مخصوص ٹوپی اور مخصوص یونیفام کے نشان سے ظاہر کرتا ہے۔دو بڑی عالمی تنظیمیں World Organization of the Scout Movement اور World Association of Girl Guides and Girl Scouts کے نام سے دنیا بھر میں کام کر رہی ہیں۔اسکاؤٹنگ کی تنظیمیں اسکاؤٹنگ کے طریقہ کار کے تحت لڑکے،لڑکیوں اورانکے یونٹس کو چلاتی ہیں۔گل گائیڈز اوراسکاؤٹنگ کا مقصد نوجوانوں کی جسمانی، ذہنی اورروحانی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے مقامی،قومی اور بین الاقوامی سطح پر انہیں معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کرنا ہے۔گرل گائیڈز اوراسکاؤٹس کا طریقہ کار ایک جدید نظام ہے، جو سات اصولوں یعنی قانون اوروعدہ،کام کوکر کے سیکھنا، ٹیم کے نظام، علامتی فریم ورک،نجی ترقی، قدرت اور بالغ لوگوں کی حمایت پرمشتمل ہے جبکہ کمیونٹی سروس بھی لڑکےاور لڑکیوں کی تنظیم کا ایک بڑا حصہ ہوتے ہیں۔
جب بندہ کام کو عملی طریقہ سے کر کے سیکھتا ہے تو اسکی خود اعتمادی بہت بڑھ جاتی ہے۔ جب چھوٹے چھوٹے گروپ اتحاد بناتے ہیں تو بھائی چارے کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔یہ تجربات امانت، ذاتی اعزاز،خود اعتمادی،پائیداری،تیار حالت میں رہنااور ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے پر زور دینے میں مدد دیتے ہیں، جس سے قیادت اور تعاون میں رہنمائی ملتی ہے۔ترقی پسند اور پر کشش سرگرمیوں کا ایک پروگرام اسکاؤٹس کے افق،علم ، تجربے اور دلچسپی کی حد کو بڑھا دیتا ہےاور یہ اسکاؤٹس کو گروپ سے زیادہ قریب کر دیتا ہے۔ایسی سرگرمیوں اور کھیلوں سے خوشگوار طریقے سے اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی مہارت کو بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔کسی دوسری جگہ پر جا کر ایسی سرگرمیوں سے وہاں کے قدرتی ماحول کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
اسکاؤٹس کی سرگرمیوں کے کیمپ میں شرکت اپنی مہارت کو بڑھانے کی لیے ہوتی ہے۔ سرگرمیوں کے کیمپ میں پرانے اسکاؤٹس کے لیے خصوصی پروگرامزچل سکتے ہیں جیسے کہ کشتی رانی، بیگ پیکنگ ، غاروں میں رہنا، مچھلیاں پکڑنا وغیرہ شامل ہیں۔ بین الاقوامی ہم آہنگی اور امن کے فروغ کے لیے بھی اسکاؤٹنگ کو ایک کردار کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔اس مقصد کو حاصل کرنے لیے مختلف اقدامات کی تربیت کی ضرورت ہے،جس میں مختلف لوگوں میں برداشت،رواداری کے فروغ اور بڑے پیمانے پر موجود گروپوں کے فائدے کی سرگرمیاں شامل ہوں۔سکاؤٹ یونیفارم اسکاؤٹنگ کی وسیع پیمانے پرتسلیم شدہ خصوصیت ہے۔1937ء میں ورلڈ جمبورز میں بیڈن پاؤل کے یہ الفاظ ہیں کہ ’’یہ ایک ملک میں سماجی اختلافات کو چھپا دیتا ہے اور برابری قائم کرتا ہے۔
اسکاؤٹس اورگرل گائیڈز نے سیلاب زلزلہ،انسانی اور قدرتی آفات میں اپنےغیرمعمولی کام کی وجہ سے شہریوں میں اپنا مقام بنایا ہے۔انھوں نے آفات میں خوراک اور کپڑے اکٹھے کیے اور لوگوں میں تقسیم کیے۔انھوں نے پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالا اور پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ابتدائی طبی امداد کے سینٹر قائم کیے۔تباہ شدہ دیہاتوں کی بحالی میں مدد کرنے میں وہ بہت فعال ہیں۔اسکاؤٹنگ کے پروگرام سماجی خدمات اور تحفظ پر زور دیتے ہیں، لہذا اس میں شمولیت آج وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔اسکی تشکیل نو از حد ضروری ہے۔اس مقصد کےلئےاسکاؤٹس اورگرل گائیڈز کے دائرہ کار کو مزید وسیع اور دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔طلبا کومثبت سرگرمیوں کی طرف لانے کے لئے ضروری ہے کہ اسےجدیدتقاضوں سےہم آہنگ اور پیشہ وارانہ مہارتوں سے روشناس کیا جائے،تاکہ طلبا کی دلچسپی قائم ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے سابقہ NCC کی طرز پر امتحانات میں خصوصی اضافی نمبروں کا اہتمام اسکی کامیابی میں رغبت اور اہم کردار اداکرے گی۔ہمیں اپنی نسل نو کے محفوظ مستقبل کے لیے تربیت کے بھرپور عملی اقدامات کرنے ہیں،خش قسمتی سےگورنرپنجاب چوھدری محمد سرور اور گور نر پنجاب کی اہلیہ وگر لز گائیڈ زایسوسی ایشن پنجاب کی صدر بیگم پروین سرور اس مقصد میں بھرپور سرگرم ہیں۔اب ہم سب کا فرض ہے کے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل اور انہیں زمےدار شہری بنانے کےلیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں!
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔