خلائی تحقیق میں مصروف سائنس دانوں نے خلا میں ایسے زوردار دھماکوں کا سراغ لگایا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے تھے۔ ان دھماکوں کو ایکسٹریم نیوکلیئر ٹرانزیئنٹس (ENTs) کا نام دیا گیا ہے، اور یہ اپنی شدت اور طوالت کے لحاظ سے سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ دھماکے اس وقت وقوع پذیر ہوتے ہیں جب دیوقامت ستارے (جو ہمارے سورج سے کئی گنا بڑے ہوتے ہیں) کسی بہت بڑے بلیک ہول کے نزدیک پہنچ کر اس کی شدید کشش ثقل کا شکار ہو کر چکنا چور ہو جاتے ہیں۔
یہ عمل اتنی شدید توانائی خارج کرتا ہے کہ وہ روشنی اور تابکاری کی شکل میں خلا میں پھیل جاتی ہے، اور زمین سے کھربوں میل دور ہوتے ہوئے بھی ہمیں اس کا احساس ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے سربراہ، جیسن ہنکل کے مطابق، گزشتہ کئی سالوں میں سائنسی برادری نے ایسے مظاہر دیکھے جنہیں ٹائڈل ڈسرپشن ایونٹس کہا جاتا ہے، مگر ENTs ان سے بالکل الگ اور کئی درجے زیادہ طاقتور ہیں۔ ان کی روشنی، عام سپر نووا دھماکوں سے دس گنا زیادہ ہے، اور ان کا دورانیہ بھی کہیں طویل، یعنی کئی برسوں پر محیط ہوتا ہے۔
سب سے زبردست ENT نے وہ توانائی خارج کی جو سب سے بڑے سپر نووا سے 25 گنا زیادہ تھی۔ جبکہ سپر نووا وہ مظہر ہوتا ہے جو سورج کی پوری زندگی میں ہر سال خارج کی جانے والی توانائی سے مطابقت رکھتا ہے۔ حیران کن طور پر، ENTs ایک ہی سال میں سورج سے 100 گنا زیادہ توانائی خلا میں خارج کر سکتے ہیں۔