بیجنگ (نمائندہ خصوصی)”انہوں نے چینی ویکسین کے بارے میں بہت سی غلط معلومات پھیلائیں”۔ یو ایس پبلک ریڈیو (این پی آر) نے حال ہی میں ایک مضمون جاری کیا ہے جس میں ییل اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر چن شی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکی میڈیا متعلقہ افواہوں کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ہے۔
چین کی وبا کی روک تھام کی پالیسی ایک نیا رخ لے رہی ہے اور دنیا اس کا خیر مقدم کرتی ہے۔ تاہم، کچھ امریکی سیاست دانوں اور میڈیا نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چین کی نوول کرونا ویکسین پر سیاسی حملوں کا ایک نیا دور شروع کر دیا ہے، تاکہ وبا سے لڑنے کی چین کی کوششوں کو بدنام کیا جا سکے۔
چین کی ویکسین اچھی ہے یا نہیں، اس کا انحصار سائنس پر ہے۔ اس وقت چین دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس نوول کرونا ویکسین کی مصنوعات دریافت اور تیار کرنے کی متعدد تکنیکس موجود ہیں ۔چین نے 13 متعلقہ ویکسینز کے استعمال کی منظوری دی ہے ۔ان میں سے چین کی ویکسین کی جانب سے اپنائی جانے والی غیر فعال ٹیکنالوجی ایک پختہ اور مستحکم ٹیکنالوجی ہے جسے دنیا تسلیم کرتی ہے۔ سائنسی تحقیق اور پریکٹس نے ثابت کیا ہے کہ چینی ویکسینز ڈبلیو ایچ او کی جانب سے نوول کرونا ویکسینز کے لیے مقرر کردہ معیارات پر پورا اترتی ہیں یعنی بیماری، شدید بیماری اور اموت کی شرع کی موثر روک تھام کرنا۔
ڈبلیو ایچ او کی جانب سے 3 چینی ویکسینز کو ہنگامی استعمال کی فہرست میں شامل کیا گیا،100 سے زائد ممالک میں چینی ویکسینز کے استعمال کی منظوری دی گئی۔ ترکی، متحدہ عرب امارات اور چلی جیسے 30 سے زائد ممالک کے رہنماؤں نے چینی ویکسین لگوائی ،متعدد ممالک نے چینی ویکسین کو صرف چھوٹے بچوں کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین کے طور پر استعمال کیا ہے۔بین الاقوامی برادری نے اس طرح چینی ویکسینز پر ‘اعتماد کا ووٹ’ دیا ہے جس کو کوئی جھوٹا پروپیگنڈہ نہیں مٹاسکتا۔
ویکسین وائرس سے لڑنے کا ایک ہتھیار ہے، نہ کہ امریکہ میں کچھ لوگوں کے لیے سیاسی ہتھیار۔ سائنس کے خلاف استعمال ہونے والے اور حقائق کو نظر انداز کرنے والے یہ جھوٹ بار بار دہرانے کے بجائے، امریکی سیاستدانوں کو اپنے انسدادِ وبا کے مسائل کا سامنا کرنا چاہئے، ویکسین کے عطیات کے اپنے وعدوں کو جلد از جلد پورا کرنا چاہئے، اور اپنے لوگوں اور وبا کے خلاف عالمی جنگ کے لئے کچھ ٹھوس کام کرنا چاہئے.