تحریر: کاشف جاوید
ہمارے ہاں سیاست ایک عجیب المیہ بن چکی ہے جہاں دلائل سے زیادہ نعرے چلتے ہیں اور دلیلوں کی جگہ شخصیت پرستی کی چمک ہوتی ہے ایک ایسا معاشرہ وجود میں آچکا ہے جہاں عقل مات کھا جاتی ہے اور ایک شخص کی شکل و صورت کو دیکھ کر اسے دیانت دار نجات دہندہ اور معصوم نبی کا درجہ دے دیا جاتا ہے اور جب بات ہو عمران خان کی تو گویا کسی مقدس ہستی کا نام لے دیا ہو جیسے اس پر تنقید کرنا گویا توہین رسالت کے زمرے میں آجاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مقبول ہے تو کیا وہ خطا سے پاک ہو گیا کیا مقبولیت کو معیار بنا کر ہم انصاف ترک کر دیں اگر مقبول ہونا ہی معیار ہے تو پھر تاریخ میں بال ٹھاکرے بھی مقبول تھا صدام حسین کے بھی لاکھوں چاہنے والے تھے مسولینی اور ہٹلر بھی جلسے کرتے تھے تو کیا ہم ان کے جرائم کو نظر انداز کر دیں کیا ان کی مقبولیت انہیں معصوم بنا دیتی ہے اور اگر عمران خان کی مقبولیت نے اسے صادق و امین ثابت کر دیا ہے تو پھر ہم بطور قوم اپنی عقل دفن کر چکے ہیں
اب آتے ہیں ان الزامات پر جنہیں خان صاحب کے پرستار جھوٹ کہتے ہیں توشہ خانہ کیس میں عمران خان نے سرکاری تحائف کو چھپایا غلط بیانی کی اور انہی تحائف کو مارکیٹ میں بیچ کر کروڑوں کمائے الیکشن کمیشن نے انہیں نااہل قرار دیا اور اسلام آباد کی عدالت نے انہیں تین سال کی قید کی سزا سنائی (The Guardian, 2024) اس کے بعد القادر ٹرسٹ کیس آیا جس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے پاکستان کو واپس ملنے والی 190 ملین پاؤنڈ کی رقم کو اپنے ذاتی ٹرسٹ کے ذریعے قبضے میں لیا گیا اور اس کے بدلے بحریہ ٹاؤن کو ریلیف دیا گیا اس مقدمے میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کو بالترتیب چودہ اور سات سال قید کی سزا ہوئی
(Al Jazeera, 2025)
اسی پر بس نہیں بلکہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن نے ثابت کیا کہ پارٹی نے ممنوعہ ذرائع سے غیر ملکی فنڈز وصول کیے جو آئین پاکستان کے خلاف ہیں اور اس فیصلے پر سپریم کورٹ نے بھی کارروائی کا آغاز کیا مگر یہ سب حقائق پی ٹی ائی کے چاہنے والوں کے لیے صرف یہودی سازش ہے
اب اگر ان تمام عدالتی فیصلوں کے بعد بھی کوئی شخص یہ کہے کہ ہم سپریم کورٹ کو نہیں مانتے ہمیں عدالتی فیصلوں سے غرض نہیں تو اسے کھلی بغاوت کہتے ہیں اور یہ طرز عمل عمران خان کے چاہنے والوں میں عام ہے یہ وہی سوچ ہے جو ہر قانونی سوال کو سیاسی انتقام کہہ کر نظر انداز کر دیتی ہے اگر یہی منطق ہے تو پھر کل ہر چور ڈاکو قاتل اپنے جرائم کو سیاسی کہہ کر بری ہو جائے گا اور ریاست محض ایک مذاق بن کر رہ جائے گی خوبصورتی اچھی انگریزی اور فٹنس سے ملک نہیں چلتے ملک ان اداروں سے چلتے ہیں جو قانون کی بالا دستی کو یقینی بناتے ہیں اگر ایک شخص کی پوری کارکردگی صفر ہو اور اس کے حامی اسے صرف اس لیے دیانت دار کہیں کہ وہ ہینڈ سم ہے اور مقبول ہے جب کہ حقیقت میں موصوف انہی کیسز کی وجہ سے جیل میں ہیں تو پھر ہم سب کو یہ مان لینا چاہیے کہ ہم دلیل نہیں دھوکہ کھا رہے ہیں یہ قوم اگر واقعی ترقی چاہتی ہے تو شخصیت پرستی کے اس خمار سے نکلے جو اسے ہر پانچ سال بعد ایک نیا مسیحا دے دیتا ہے لیکن نتیجہ پھر وہی صفر نکلتا ہے یاد رکھو عمران خان کوئی نبی نہیں وہ بھی ایک سیاست دان ہے اس کی بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے بلکہ زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ وہ عوام کے اعتماد سے آیا اور اگر وہی اعتماد لوٹ لیا گیا تو اس سے بڑا جرم کوئی نہیں
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔