کنکریاں ۔ کاشف مرزا
مدارس کی اہمیت بلاشبہ مسلمہ ہے اور اسلامی تاریخ میں انکے درخشاں کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جنہوں نے دنیا کے بہترین قانون دان، فلسفی، منظم، اطبا، مورخ اور سائنسدان پیدا کیے۔ تعلیم جسکا حصول ہر مومن مرد و عورت پر فرض قرار دیا گیا ہے، صرف مساجد میں ہوتی تھی بعد ازاں اسکے لئے الگ سے جگہیں مخصوص کر دی گئیں۔ برصغئیرمیں تو انگریز کی آمد سے قبل حصول تعلیم کا واحد ذریعہ صرف مدارس ہی تھے، لیکن مدارس محض دینی تعلیم تک محدود ہوتے چلے گئے جبکہ دوسری طرف انگریز نے جدید تعلیم کی بنیاد ڈالی جو عہد حاضرکے تقاضوں سے ہم آہنگ تھی، مسلمانوں کے بجائے ہندوئوں نے انگریزی نظام تعلیم کو اپنایا اور ہم سے آگے بڑھ گئے۔
قیام پاکستان کے وقت ملک میں مدارس کی تعداد سینکڑوں تھی جو اب ہزاروں میں ہے۔ سوویت یونین کی افغان جنگ کے بعد ملک کے طول و عرض میں مدارس کی تعداد میں برق رفتاری دیکھنے میں آئی۔ملک کی آبادی کی ایک بڑی تعداد آج بھی بریلوی مکتبہ فکر سے وابستہ ہے لیکن مدارس میں سب سے بڑی تعداد دیوبندی مکتبہ فکر کے اداروں کی ہے۔ اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مدارس کی تنظیم کا نام وفاق المدارس العربیہ ہے۔جس سے 20320 مدارس کا الحاق ہے، جن میں بائیس لاکھ کے قریب طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔افغان وپاکستانی طالبان اور جمعیت علمائے اسلام بھی اس مکتبہ فکر کی تقلید کرتی ہے۔بریلوی مدارس کی تنظیم کو تنظیم المدارس کہا جاتا ہے۔ جسکی تعداد اب11030 کے قریب ہے۔
اس میں تقریباً 15لاکھ طلباءتجوید، حفظ اور درس نظامی پڑھتے ہیں۔ اسکے علاوہ چنددیگربریلوی مکتبہ فکر کے تعلیمی ادارے منہاج القرآن نامی تنظیم کے تحت بھی کام کر رہے ہیں۔جماعت اسلامی کے تحت چلنے والے مدارس کے وفاق کا نام رابطہ المدارس الاسلامیہ پاکستان ہے۔ اس تنظیم کے تحت 1208 مدارس چل رہے ہیں، ان مدارس میں سے510ادارے طالبات کے لیے ہیں۔اہل حدیث مکتبہ فکر کے تحت 1510 مدارس چلائے جا رہے ہیں۔ انکی وفاقی تنظیم کو وفاق المدارس السلافیہ کہا جاتا ہے، جن میں 41000 کے قریب طلباءپڑھتے ہیں۔اہل تشیع مکتبہ فکر کے پاکستان میں کل 510 مدارس ہیں۔ ان مدارس کی تنظیم کے تحت تقریباًبیس ہزار تک طلبا زیر تعلیم ہیں۔ان مدارس کے علاوہ جماعت اسلامی، جماعت الدعوة، منہاج القرآن،دارالعلوم کراچی، اقرا روضتہ اطفال، مدینہ اطفال، اقراء حدیقہ اطفال اور دعوت اسلامی کے تحت بھی بہت سے دینی و دنیاوی مکس طرز کے تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں۔
گزشتہ ایک سال میں مدارس کی تعداد میں دس سے بارہ فیصد کااضافہ ہوا ہے۔اسکی بنیادی وجوھات میں قدرتی آفات کے دوران مذہبی جماعتوں کا تعمیری کردار اورمصیبت میں گھرے لوگوں کی مدد کرناہے۔ ہزاروں معاشی طور پر بدحال خاندانوں نے اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کرایا، جہاں رہائش اور کھانا مفت ہوتا ہے۔ ان مدارس میں اب صرف غریب علاقوں ہی سے طلبہ نہیں آتے بلکہ متوسط گھرانوں کے بہت سے طلبہ کا رجحان بھی مذہبی تعلیم کی طرف ہو رہاہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان جیسے بڑے شہروں میں طلبہ کی تعداد خصوصاﹰ بڑھی ہے۔اس عمل کے پیچھے بعض ایسے غیر ملکی عناصر کا ہاتھ بھی ہے جنکے مقاصد مذہب کے نام پر ملک کی نظریاتی تقسیم ہے ،ایسی تنظیموں کی آبیاری کی گئی جنکا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ مدارس سے ہی تھا اور آج ان میں سے بیشتر کالعدم ہیں اور پاکستان ہی کیا اقوام متحدہ تک نے ان تنظیموں کو کالعدم قرار دیا، پاکستان نے بلاشبہ انکے خلاف بلا تخصیص و بلا امتیاز کارروائی کی لیکن ہمارے ہمسائے بھارت نے اپنے ملک میں ہونے والی ہر کارروائی کا ملبہ پاکستان پر ڈالا اور اپنی سفارتکاری کے ذریعے پاکستان پر دہشت گردی برآمد کرنے والے ملک کا لیبل لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
ان حالات میں حکومت ملک میں یکساں نصابِ تعلیم رائج کرنے میں کوشاں ہے،جو کہ خوش آئند ہے۔ اس سلسلے میں تمام مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی اور اُنہیں وفاقی وزارتِ تعلیم سے منسلک کیا جائے گا تاہم وہ اپنا نظم و نسق خود سنبھالیں گےاور تمام اس پر اتفاق رائے موجود ہے۔رجسٹریشن نہ کروانے والے مدارس کام جاری نہ رکھ سکیں گےجبکہ مدارس کے نصابِ تعلیم کو ازسر نو ترتیب دینے کے لئے بھی اقدامات کیے جارہےہیں، نیز آئندہ تمام ٹرانزیکشنز بذریعہ بینک ہوں گی، مدارس میں میٹرک اور ایف اے کے تمام لازمی مضامین پڑھائے جائیں گے اورجنکا امتحان فیڈرل بورڈ لے گا اور اسناد جاری کرے گا، جوں جوں حالات بہتر ہوں گے مدارس کی مالی امداد بھی کی جائے گی۔
اس حوالہ سےعلماء کے نمائندہ وفد کی چیف آف آرمی اسٹاف اور وزیراعظم پاکستان سے ملاقاتیں ہوئی بعد ازاں ان ملاقاتوں کی وجہ سےوزارت تعلیم میں باضابطہ طورپر مذاکرات ہوئے جن میں دینی مدارس کے حوالے سےطے پایا گیاکہ آئندہ تمام دینی مدارس وجامعات اتحاد تنظیماتِ مدارس پاکستان کے ساتھ طے شدہ رجسٹریشن فارم کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹریشن کرانے کے پابند ہوںگےاوراس مقصد کے لیے وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت پورے ملک میں 10ریجنل دفاتر رجسٹریشن کے لیے قائم کرے گی ۔یہ رجسٹریشنپہلےوزارت انڈسٹریز کے تحت ہوتی تھی جبکہ اب وزارتِ تعلیم میں رجسٹریشن ہوگی ۔وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت مدارس وجامعات کے اعداد وشمار اکٹھے کرنے کی واحد مجاز اتھارٹی ہوگی ۔وہ مدارس وجامعات جو وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈنہ ہو ں گے ،
وفاقی حکومت انہیں بند کرنے کی مجاز ہوگی ۔جو مدارس وجامعات رجسٹریشن کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کریں گے انکی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے گی ۔بیرونی ممالک کے طلباء کی تعلیم اور ویزا کا اجراء وفاقی وزارت ِتعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹر ڈ مدارس وجامعات غیرملکی طلبا ء کو تعلیم کی سہولت مہیا کرسکیں گے ۔اس سلسلے میں وزارت تعلیم کی سفارش پر ان طلباء کو انکی مدت تعلیم اور حکومتی قواعد وضوابط کے مطابق انکے لیے ویزا کے اجراء میں معاونت کرے گی ۔ٹیکنیکل و ووکیشنل تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے وزارت کے ساتھ رجسٹرڈ مدارس وجامعات میڑک وانڑکے بعد فنی تعلیمی بورڈ کے ساتھ الحاق کرسکیں۔
صدافسوس کہ دنیا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس FATF پربھی بھارتی موقف کی قائل نظرآ رہی ہے اور پاکستان کومطلوبہ اقدامات نہ کرنے پر گرے لسٹ میں شامل کرنے کی بات بھی ہو رہی ہے،جسکا مطلب عالمی تنہائی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عہد حاضر میں عالمی برادری سے کٹ کر کوئی ملک ترقی و خوشحالی کر سکتا ہے تو وہ خود فریبی میں مبتلا ہے۔
ان تمام حالات میں دیکھا جائے تو مدارس کی رجسٹریشن یا تبدیلی نصاب قابلِ فہم و عمل ہے۔ مدارس دینی تعلیم کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور رجسٹریشن کے بعد بھی دیتے رہیں گے جبکہ انکے مدارس کا انتظام بھی انکے ہاتھوں میں ہی رہے گا۔
یہ تو ایک بہتر اقدام ہے کہ دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول کے بعد مدارس کے طلبہ کی سند تسلیم ہو گی، وہ قومی دھارے میں شامل ہو سکیں گےاور انکے لئےسرکاری ملازمتوں اور دیگر ترقی کے دروازےبھی کھل جائیں گے۔ امید ہے کہ مدارس اس حکومتی اقدام پرخود رجسٹریشن کے لئے آگے بڑھیں گے اور یہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔اس حوالے سے ضروری ہے کہ حکومت تمام فیصلے مدارس کے منتظمین کو اعتماد میں لے کرکرے۔تاکہ باہمی اعتماد سازی کے لیے اعتماد کاماحول بنایاجائے۔ اسکے لیے ضروری ہے کہ دینی مضامین کا امتحان حسب سابق دینی مدارس کے وفاق کو ہی لینا چاہیےتاہم عصری مضامین یعنی میڑک میں انگلش ،ریاضی ،اردو اور مطالعہ پاکستان جبکہ انٹرمیڈیٹ میں انگلش ،اردو اور مطالعہ پاکستان کا امتحان فیڈرل بورڈ لے تاکہ دین اور دنیا کی باقاعدہ مثبت شراکت داری سےاعتماد سازی اور قومی ترقی کا عملی نمونہ پیش ہو اور دینی مضامین کے نمبروں کو شامل کرکے مشترکہ نتیجہ اور ڈگری جاری کی جائے۔
عصری مضامین کو شامل نصاب کرنے کا عمل بتدریج ہونا چاہئے کیونکہ مضامین اور نظام امتحان اور ڈگریوں کےاجراء کے معاملے میں ہمارے ہاں بلاشبہ مختلف آراء وافکار پائے جاتے ہیں اور ہر نظریے کے حامل افراد کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں اس لیے خوب سوچ بچار اور بحث وتمحیص کے بعد وہی فیصلہ کیا جائے جو قومی اساس اور دینی ترجیحات کے مقاصد سے ہم آہنگ ہواور نئی نسل کی ضروریات سے مطابقت رکھتا ہو۔
ملک بھر کے دینی مدارس اورانکے وابستگان، تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے محب وطن اور اسلام پسند پاکستانیوں کی دینی مدارس کے بارے میں حساسیت ،فکرمندی ،شعور ،بیداری ،بیدارمغزی بلاشبہ پاکستانی قوم کا خاصہ اور ہمارے لیے اثاثہ اور سرمایہ ہے ،لہذا تمام اسٹیک ہولڈرز کو دینی ترجیحات ،ملکی مفاد، نسل نو کی ضروریات اور وقت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قومی و ترقی کے دھرے میں اعتماد کے ساتھ شامل کیا جائے!