لاہور( نمائندہ خصوصی)وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ 1999ء میں پاکستان ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش سے آگے تھے لیکن وہ آج ہمیں پیچھے چھوڑ گئے ہیں ،
اگر ہم ایسے ہی چلتے رہے اور ماضی سے سبق سیکھ کر خود کو صحیح سمت میں نہ ڈالا تو کوئی بعید نہیں دس ، پندرہ سالوں بعد شاید افغانستان بھی ہم سے آگے نکل جائے ، مسلم لیگ(ن) نے وژن 2010اور وژن 2025ء دیا ،پاکستان کسی بھی لحاط سے انڈ ر ڈویلپڈ نہیں بلکہ انڈ ر مینج ملک ہے اگر اس میں بھی ٹرن ارائونڈ ہو جائے تو ہم بہت بڑی کامیابی سمیٹ سکتے ہیںجو22کروڑوں لوگوں کی زندگی بدل سکتا ہے ،2018 میں جب ہم نے حکومت چھوڑی تو پاکستان کا ترقیاتی بجٹ 1000 ارب روپے تھاآج حکومت میں آئے تو ترقیاتی بجٹ سکڑ کر 550 ارب رہ گیا ہے ،ملک کے تمام اخراجات خسارے سے پورے ہو رہے ہیں،
5 ، 6 ہزار ارب کے اخراجات خسارے سے پورے کر رہے ہیں۔نجی ہوٹل میں ” سی او ز سمٹ ” سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ ایک ایسا ملک ہے جسے قدر ت نے اتنے وسائل سے اتنے مواقعوں سے مالا مال کیا ہے آج 2022میں جب ہم 75ویں سالگرہ منا رہے ہیں ہم مشکلات کا شکار ہیں ، 1999ء تک پاکستان جنوبی ایشیاء کی بڑی معیشت تھا ہم بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی آگے ہیں لیکن آج بنگلہ دیش بھی اور بھارت بھی ہمیں پیچھے چھوڑ گیا ہے ،
اگر ہم ایسے ہی چلتے رہے اور ماضی سے سبق سیکھ کر خود کو صحیح سمت میںنہ ڈالا تو کوئی بعید نہیں دس ،پندرہ سال میں شاید افغانستان بھی ہم سے آگے نکل جائے ، یہ ایک بڑا سنجیدہ لمحہ ہے ۔
انہوںنے کہاک ہ جس نسل کی میں نمائندگی کرتا ہوں ہم تاریخ کے سامنے کندھوں پر بہت بوجھ اٹھا کر کھڑے ہیں، جب پاکستان کی پچاسویں سالگرہ تھی تو میں میں اسوقت حکومت میں شامل ہوا تھا عزم تھا ملک کے لئے کچھ کرو ں ، اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف نے کہا کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں تو میں نے یہی تھیسز دیا کہ پاکستان کو بہت سے داخلی مسائل کا سامناہے لیکن دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے انڈسٹریل انقلاب نالج انقلاب میں میں ڈھل رہا ہے ، ہر ملک اپنے اندر صلاحت پیدا کر رہا ہے ،یہ صلاحیت دو چار پانچ سالوں میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ دس پندرہ سال کاتسلسل اور محنت مانگتی ہے ۔
ملائیشیاء نے وژن 2020بنایا چین نے وژن 2049دیا ، انہوںنے دس دس سال کے اہداف رکھے لیکن انہیںپانچ ،پانچ سالوں میں حاصل کیا۔ 1980میں پاکستان کی فی کس آمدن 300جبکہ چین کی 200ڈالر تھی ، آج ہم 1500ڈالر پر لڑا کھڑا رہے ہیں چین 12سے 14ہزار ڈالر فی کس آمدن پر پہنچ چکا ہے ۔انہوںنے کہا کہ ہم نے 1997میں سوچ کر وژن 2010شروع کیا جس کے تحت ہم اپر مڈل انکم ملک ہوں گے ۔ اس وژن میں اس حد تک کیلکویٹ کیا تھا کہ 1998میں پاکستان انرجی سرپلس ملک اور ہم بھارت کو فالو بجلی برآمد کرنے کی بات کر رہے تھے ۔ 1998میںپیشگوئی کی تھی اگر پاور جنریشن کو نظر انداز کیا 2010میں ہمیں توانائی کی قلت کا سامنا ہوگا، لوگ کہتے تھے ہمارے پاس تو فالتو بجلی ہے ،19999ء میں مارشل لاء لگتا ہے اور اور وژن2010ء کو اٹھا کر ردی کی ٹوکر ی میں پھینک دیا جاتا ہے ،ہم امریکہ کی جنگ میں آپ اپنے کو جھونک دیتے ہیں ،ملک کے لئے انفراسٹر اکچر کی کیا ضروریات ہیں کوئی سوچ بچار نہیں تھی ،2006اور2007 اور بد ترین لوڈ شیڈنگ کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔
جب ہم 2013میں واپس آئے تو16،16گھنٹے بجلی نہیں آتی تھی یو پی ایس چارج نہیں ہوتے تھے اور لوگ گھروں میں لالٹین اور موم بتی چلانے پر مجبورہو گئے تھے ، 2013ء میں ہر روز خود کش حملے ہوتے تھے اور درجنوں پاکستانی شہید ہوتے تھے ، کراچی کے اندر یہ عالم تھا کوئی مرد گھر سے نکلتا تو اس کی ماں بیٹی اور بیوی مسلے پر بیٹھ کر دعا کرتی تھی کہ شام کو خیریت سے واپس آ جائے ،اس وقت بھی ٹرن ارائونڈ کاچیلنج تھا ،
اس وقت حکومت نے نواز شریف کیق یادت میں وژن 2025 دیاجس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا گیا اورہر ممکن کوشش تھی اتفاق رائے پر مبنی قومی دستاویز ہو ، ہم نے اس وژن کے تحت2025ء تک ٹاپ 25معیشتوں میں شامل ہونا تھا۔اس وقت کے سقراطوں اور بقراطوں نے ہمارا مذاق اڑایا کہ ملک میں بجلی نہیں ہے سرمایہ کار پاکستان نہیں آرہے اور آپ شیخ چلی کا خواب بیچ رہے ، لیکن جب عزم کے ساتھ کسی منصوبے پر کام کیا جائے تو غیبی مدد آتی ہے ،سی پیک کی صورت میں پاکستان میں غیبی مدد آئی،2017 دنیا کہنے لگی کہ 2030 تک پاکستان دنیا کی 20ٹاپ معیشتوں میں شامل ہو گا،2018 میں جب ہم نے حکومت چھوڑی تو پاکستان کا ترقیاتی بجٹ 1000 ارب روپے تھاآج حکومت میں آئے تو ترقیاتی بجٹ سکڑ کر 550 ارب رہ گیا ہے ،
ملک کے تمام اخراجات خسارے سے پورے ہو رہے ہیں،5 ، 6 ہزار ارب کے اخراجات خسارے سے پورے کر رہے ہیں،کامیاب ممالک میں 16 سے 18 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی ہے پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو بہت کم ہے ،پاکستان کے کاروباری طبقوں کو ٹیکس ریونیو کو بڑھانے میں کردار ادا کرنا ہوگا،ہمیں تجارتی خسارے کا سامنا ہے ،ملک کی ترقی کے لئے برآمدات پر توجہ دینا ہوگی ، درآمدی بل کو کم اور برآمدات کو بڑھانا ہوگا،پاکستان کا دوسرا ٹرن ارائونڈ چیلنج یہ ہے کہ ہم32 ارب ڈالر سے 100 ارب ڈالر کی برامدات تک کب تک جاتے ہیں۔