تحریر : کاشف جاوید
کچھ لوگ دنیا میں ایسے آتے ہیں جیسے حالات کے رولر ہوں، جہاں سے گزریں ہر چیز چپٹی اور ہموار ہو جائے، مگر ہماری نسل تو ان لوگوں میں سے ہے جو حالات کے نیچے آ کر خود چپٹے ہو چکے ہوتے ہیں، اس لیے جب کوئی کہتا ہے کہ ابھی وقت سازگار نہیں یا ذرا حالات بہتر ہو جائیں تو کچھ کرنے کا سوچیں گے تو ہمیں ہنسی بھی آتی ہے اور حیرت بھی۔ بات دراصل یہ ہے کہ آئیڈیل حالات نام کی کوئی چیز دنیا میں نہیں پائی جاتی، یہ ایک ذہنی فریب ہے، ایک تجریدی خیال جو انسان کو ساکت رکھنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
آپ شہباز شریف سے پوچھیں یا ٹرمپ سے، دونوں یہی کہیں گے کہ ابھی وقت تھوڑا سا مشکل ہے حالانکہ دونوں کے پاس اقتدار، وسائل اور مشورہ دینے والے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ آئیڈیل حالات کو اگر وجودی فلسفے کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ وہ پرچھائیں ہے جو ہمیں لگتا ہے کہ سامنے ہے مگر قریب جاتے ہی تحلیل ہو جاتی ہے۔ ژاں پال سارتر نے کہا تھا "آزادی انسان کا مقدر ہے” اور اس آزادی میں سب سے پہلا قدم یہی ہے کہ ہم حالات کے غلام بننے سے انکار کر دیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کام کرنا ہے، جیسے بھی حالات ہوں، کیونکہ کام خود زندگی کا تعارف ہے۔ اگر لکھنا ہے تو ایسا لکھیں کہ لفظ جھیل کے پانی کی طرح صاف دکھائی دیں، اگر پڑھنا ہے تو ایسے جیسے ہر سطر کے پیچھے ایک راز چھپا ہو، اگر کوئی ساتھ ہے تو اسے شکر کہیں اور اگر کوئی نہیں ہے تو تنہائی کو علم کے ساتھ آباد کریں کیونکہ تنہائی جب تخلیق سے جا ملے تو وہ تنہائی نہیں رہتی، وہ ایک کائنات بن جاتی ہے۔
زندگی ایک مسلسل حرکت ہے، وہی جیتتا ہے جو چلتا رہتا ہے، جن کے پاؤں میں چھالے ہوں یا دل میں سوال وہی اصل میں مسافر ہیں۔ لہٰذا آگے بڑھیں اور کام کریں کیونکہ حالات کبھی بھی مکمل نہیں ہوں گے اور نہ ہی ہونے چاہییں، کیونکہ مکمل تو صرف اختتام ہوتا ہے، اور ہم ابھی زندہ ہیں۔
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔