تحریر : کاشف جاوید
یہ زمانہ جس میں ہم جی رہے ہیں، اسے جدید دنیا کہا جاتا ہے یا انگریزی میں Modern World۔ سوال یہ ہے کہ جب یورپ میں نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کا دور آیا، تو انہوں نے ہر اس رکاوٹ کو ہٹا دیا جو سوچ کو جکڑ کر رکھتی تھی۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ وہی کام آج سعودی عرب میں محمد بن سلمان کر رہے ہیں، یعنی اپنے ملک کو ماڈرن بنانے کی کوشش۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں؟ کیا ہم صدی پرانی سوچ لے کر اس جدید دنیا میں مسابقت (Competition) کر سکتے ہیں؟ یا پھر ہماری قسمت میں بس یہی لکھا ہے کہ کنزیومر (Consumer) بن کر بیٹھے رہیں؟
چلیے مان لیا کہ ہر نئی چیز مغرب کی سازش (Conspiracy) ہے۔ چلیے یہ بھی مان لیا کہ دنیا مایا ہے، ایک سراب ہے، دھوکا ہے (Illusion)۔ چلیے، علامہ اقبال کو بھی درمیان میں لے آتے ہیں تاکہ بات زیادہ قابلِ قبول ہو جائے۔ وہ کہہ گئے:
"جو عالم ایجاد میں صاحب ایجاد ہے
کرتا ہے ہر دور میں طواف اس کا زمانہ”
یہ شعر صرف پڑھنے کے لیے نہیں، سمجھنے کے لیے ہے۔ جو نئی چیزیں ایجاد کرتا ہے، دنیا اس کے پیچھے چلتی ہے۔ یعنی ترقی (Progress) اور ایجاد (Innovation) ہی وہ چیزیں ہیں جو دنیا پر حکمرانی کی کنجی (Key to Power) ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم کچھ ایجاد نہیں کرتے۔ اور کریں بھی کیوں؟ ہمیں تو یہ دنیا "کتے کی ہڈی” لگتی ہے۔ اور جب کوئی قوم دنیا کو ایک بےوقعت چیز سمجھے، تو وہ اس میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل بھی نہیں رہتی۔
سوال یہ ہے کہ جدید خیالات پیدا کیوں نہیں ہوتے؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ ہمارے لکھاری (Writers) ایک خاص دائرے میں رہنے کے عادی ہیں، نئی سوچ اپنانے سے ڈرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ جو کچھ پڑھتے ہیں، اسے الفاظ آگے پیچھے کر کے اپنے نام سے شائع کر دیتے ہیں، کوئی اوریجنل سوچ (Original Thought) سامنے نہیں آتی۔نیا خیال تب پیدا ہوتا ہے جب معروضی حقیقت (Objective Reality) بدلتی ہے، لیکن جب ہماری حقیقت سو سال پرانی ہو، تو پھر سوچ میں تبدیلی کیسے آئے؟ اب دو ہی راستے ہیں: یا تو ہجرت (Migration) کر جائیں تاکہ کسی بہتر ماحول میں کچھ سیکھ سکیں، یا پھر کچھ ایسا پڑھیں جو ہماری سوچ کو جھنجھوڑے (Shake Our Thinking)۔
جیسا کہ تھیوڈور آڈورنو کہتا ہے کہ "جب ہم پڑھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں نئے خیالات آشکار ہوتے ہیں اور پرانی سوچ نئی فکر کے ساتھ مل کر ایک وسیع تر وژن تشکیل دیتی ہے۔”لیکن المیہ (Tragedy) یہ ہے کہ ہم پڑھتے ہی نہیں! ہمارے ہاں کتاب پڑھنے والوں کی تعداد اتنی ہے جتنی لوگ بجلی کا بل وقت پر جمع کرتے ہیں۔ اب ایسے میں اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ہم جدید دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں، تو اس کا جواب یہی بنتا ہے کہ پہلے خود سے پوچھیں، ہم چلنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔