تہران میں اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے تقریباً 60 اعلیٰ فوجی کمانڈرز، بیلسٹک میزائل پروگرام کے سربراہان، ایٹمی سائنسدانوں، خواتین اور بچوں کی نماز جنازہ کے موقع پر لاکھوں شہری سڑکوں پر اُمڈ آئے۔
ایرانی سرکاری میڈیا "آئی آر آئی بی” کے مطابق، تہران کے انقلاب اسکوائر میں صبح 8 بجے ہونے والی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے عوام کا جمِ غفیر جمع ہوا، جہاں ہر طرف حب الوطنی کا جوش، پرچموں کی بہار، اور شہداء کی یاد میں آنکھوں میں آنسو تھے۔
ایرانی صدر مسعود پزیشکیان بھی اس پر وقار مگر دل خراش موقع پر موجود تھے۔ اسٹیج پر نمایاں طور پر شہید جنرل حسین سلامی، میجر جنرل محمد باقری اور جوہری سائنسدان محمد مہدی تہرانچی سمیت دیگر شہداء کی تصاویر آویزاں تھیں۔
شہریوں نے ہاتھوں میں ایرانی پرچم اور آیت اللہ علی خامنہ ای کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔ فضا میں "مرگ بر اسرائیل” اور "مرگ بر امریکا” کے نعرے گونجتے رہے۔ جذباتی ماحول میں ہر کوئی شہداء کے تابوتوں کو ہاتھ لگا کر اُن سے عقیدت کا اظہار کرتا رہا۔
"تسنیم” نیوز ایجنسی کے مطابق جنازے میں خواتین اور بچوں کے چار تابوت بھی موجود تھے، جو اسرائیلی فضائی حملوں کا نشانہ بنے۔ قومی سطح پر سرکاری دفاتر بند رکھے گئے تاکہ عوام اور سرکاری ملازمین جنازے میں بھرپور شرکت کر سکیں۔
سرکاری ٹیلی ویژن نے براہِ راست نشریات میں شہداء کی آخری رسومات دکھائیں، جس میں ہزاروں سوگوار سیاہ لباس پہنے، ایرانی پرچم تھامے، شہداء کے لیے دعائیں مانگتے نظر آئے۔
یہ جنازہ جنگ بندی کے بعد ایران کی پہلی بڑی عوامی تدفین تھی، جس نے ایک بار پھر دنیا کو یاد دلایا کہ ایران اپنے شہداء کو صرف دفن نہیں کرتا، بلکہ اُنہیں تاریخ کے اوراق میں محفوظ کر لیتا ہے۔