کنکریاں – کاشف مرزا
امریکا طالبان امن مذاکرات ختم اور ٹرمپ نے کیمپ ڈیوڈ میں ہونیوالی خفیہ ملاقات بھی منسوخ کرتے ہوئے کہاکہ بامقصد معاہدے کیلئے جنگ بندی ضروری ہے۔طالبان کتنی دہائیاں لڑینگے، کیسے لوگ ہیں جو سودے بازی میں مستحکم پوزیشن کیلئے لوگوں کو قتل کرتے ہیں،شاید طالبان میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ بامقصد معاہدے کے لیے کوئی مکالمت کر سکیں۔طالبان کاکہناتھاکہ ٹرمپ کے فیصلے سے زیادہ نقصان امریکا کا ہوگا،جبکہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہاہےکہ امید ہے طالبان رویہ بدلیں گےاور بات چیت کے ذریعے معاملہ حل ہوجائیگا، دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے کہاکہ قیام امن کیلئے طالبان اپنے حملے ترک کر کے ہم سے براہ راست بات چیت کریں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کر نے کا فیصلہ کابل میں ایک امریکی فوجی سمیت 12افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے اس حملے کے بعد کیا جسکی ذمے داری طالبان نے قبول کر لی تھی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان عسکریت پسندوں کی قیادت کے ساتھ دوحہ میں ہونے والے امریکی مذاکرات کے نتیجے میں امریکا میں کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر ایک خفیہ سربراہی ملاقات بھی کرنے والے تھے۔
طالبان قیادت سے امریکی صدر ٹرمپ کی امریکی سرزمین پر خفیہ ملاقات کا منصوبہ اور پھر اس خفیہ ملاقات کی منسوخی پر صدر ٹرمپ کے سیاسی مخالفین نے سخت تنقید شروع کردی ہےاور متعدد سوالات اٹھاتے ہوئے اسے صدر ٹرمپ کی ناکام خارجہ ڈپلومیسی کا نام دیا ہے ۔طالبان قیادت کی امریکا آکر کیمپ ڈیوڈ میں صدر ٹرمپ سے خفیہ ملاقات کے بارے میں خود صدر ٹرمپ کے ٹوئٹر سے انکشاف ہونے پر ایک سوال اٹھایا جارہا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم رول ادا کرنے والے پاکستان کواس منصوبے کےبارے میں کتنا باخبر رکھا گیا تھا؟ کیا امریکا یا طالبان نے پاکستانی قیادت کو اس بارے میں اعتماد میں لیا تھا؟اس خفیہ ملاقات کیلئے پاکستان نے کیا رول ادا کیا؟ یا پھر امریکا اور طالبان نے خاموشی سے صدر ٹرمپ اور طالبان کی خفیہ ملاقات پر فیصلہ کرلیا تھا۔جس کیلئے افغان صدر اشرف غنی کو اعتماد میں لیکر انہیں بھی واشنگٹن آنے کیلئےکہا گیا تھا۔
وہائٹ ہائوس میں صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کی ملاقات اور صحافیوں سے گفتگو کے دوران افغانستان میں امن کیلئے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے اور امن کے قیام کیلئے پاکستان کے تعاون کی تعریف کرتےہوئے کہا تھا کہ پاکستان کا رول بڑا اہم ہے لیکن طالبان کو خفیہ ملاقات کیلئے امریکا لانے اور صدر ٹرمپ سے براہ راست ملاقات اور مذاکرات کرنے کے منصوبہ کے بارے میں پاکستان کو باخبر رکھنے کے بارے میں امریکی حکمت نے ایک بار پھرسوالات اٹھادیئے ہیں۔یہ بیان بذات خود پاکستان کی خارجہ پالیسی اور پاکستان کی عسکری قیادت کیلئے بھی سوچ اور فکرکی دعوت دیتا ہے کہ آخر افغانستان میں امن کی تلاش کی امریکی حکمت عملی میں پاکستان کے مفادات اور اعتماد کی کیا اور کیسی پوزیشن ہے؟ نیز کشمیر میں بھارتی اقدامات اور پاک بھارت کشیدگی کی موجوہ صورتحال پر اسکے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ٹرمپ طالبان خفیہ ملاقات کی منسوخی کو بھارت کس طرح اپنے فائدے اور کشمیر کے حوالے سے خود کو عالمی دبائو سے نکالنے کیلئے استعمال کرسکتا ہے؟ کیونکہ طالبان امریکا مذاکرات آگےبڑھانے میں پاکستان کے رول کے باعث پاک امریکا تعلقات میں بہتری آئی لہٰذا اب صدر ٹرمپ کی جانب سے خفیہ ملاقات کے انکشاف اور منسوخی کے بعد کی صورتحال میں پاکستان کو کیا رول ادا کرنا ہے، پاکستانی قیادت کوعملی طور پر اس بات کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ پاکستان نہ صرف دنیا کے اس حساس خطے کا حصہ ہے بلکہ وہ حالات کی اونچ نیچ کے دوران بھی اپنا اہم رول ادا کرسکتا ہے۔
افغان امن مذاکرات منسوخی پر طالبان کا ماننا ہے کہ امریکا انہیں سیاسی موت مارنا چاہتا تھا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ختم کرنے کے فیصلے سے زیادہ تر افغان بشمول صدر اشرف غنی بہت خوش ہوں گے کیوںکہ انکا ماننا تھا کہ ٹرمپ انہیں فروخت کرنا چاہتے ہیں۔طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ختم کرنے کی وجہ طالبان کی امریکی شرائط کے خلاف مزاحمت تھی ۔ٹرمپ چاہتے تھے کہ طالبان رہنمااورافغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ لے جائیں اور دونوں فریقین کے ساتھ مذاکرات کریں۔تاہم طالبان رہنمائوں کا ماننا تھا کہ امریکا انہیں دھوکہ دے کر سیاسی موت مارنا چاہتا ہےاور امریکا مختلف مسائل کو حتمی شکل دینے میں جلد بازی کررہا ہے۔جبکہ یہ حقیقت کہ ٹرمپ خفیہ طور پر امریکا کی جانب سے دہشت گرد قرار دیئے جانے والے گروپ سے ذاتی طور پر ملناچاہتے تھے اور وہ بھی 9/11کے اٹھارہ برس مکمل ہونے سے چند روز قبل ، اس پر واشنگٹنحیران تھا اور یہ کسی دھچکے سے کم نہیں تھا۔جبکہ یہ بھی ممکن تھاکہ صدر ٹرمپ اس ڈیل کا کریڈٹ لینا چاہتے تھے تاکہ آئندہ برس انتخابات میں فائدہ اٹھا سکیں۔غالبا ٹرمپ اب سمجھ گئے ہیں کہ خراب ڈیل سے ڈیل نہ ہونا بہتر ہے۔طالبان سمجھتے ہیں انہوں نے امریکیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے، مذاکرات کی منسوخی طالبان کو دباؤ میں لانے کیلئے ٹرمپ کی چال بھی ہوسکتی ہے طالبان کی حالیہ کارروائی سے سب سے زیادہ افسوس پاکستان کوہوا ہے،جس نےپچھلے دس ماہ میں افغان امن عمل میں بہت محنت کی جو ضائع ہوگئی۔امریکی صدر ٹرمپ جن شرائط پر معاہدہ کررہے تھے اس پر امریکی اسٹیبلشمنٹ راضی نہیں تھی، افغان حکومت نے ٹرمپ کے سامنے کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کردیا ہے مذاکرات منسوخی کی ایک وجہ طالبان کا رویہ بھی ہے، طالبان جتنا معاہدے کے قریب ہوئے اتنا ہی افغان حکومت سے متعلق انکا رویہ سخت ہوگیا ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے طالبان امریکہ مذاکرات معطل کیے جانے کے اعلان کے بعد امن عمل جاری رکھنے کیلئے چین، پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعاون کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔مذاکرات کی بحالی اور جلد از جلد اطمینان بخش تکمیل علاقائی اور عالمی امن کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس کیلئے اس سہ ملکی اتحاد کو بھی اپنا کردار زیادہ سے زیادہ مؤثر طور پر ادا کرنا چاہئے تاکہ خطے کو ہلاکت و تباہی کے ایک نئے دور سے بچایا جاسکے۔صدر ٹرمپ کے طالبان قیادت سے مذاکرات معطل کرنے کے اعلان سے خطے میں امن و استحکام کے امکانات دھندلے ہوتے نظر آتے ہیں لیکن اس پھیلتی ہوئی تاریکی میں افغان امن عمل کو جاری رکھنے کی خاطر پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کااسلام آباد میں ہونیوالا اجلاس یقیناً امید کی روشن کرن ہے۔تینوں وزرائے خارجہ نے مشترکہ نیوز کانفرنس میں بتایاکہ تینوں ملکوں نے افغان امن عمل کے سلسلے میں اقتصادیات رابطہ سازی ،سیکورٹی، انسدادِ دہشت گردی اور سفارتی تربیت کے شعبوں میں تعاون کے فروغ سمیت پانچ نکاتی معاہدے پر اتفاق کیا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا مرحلہ وار اور ذمہ دارانہ ہونا چاہئے۔یہ ایک ایسی بات ہے جسکی ضرورت کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ امریکی افواج کی ایک ہی مرحلے میں مکمل واپسی سے مختلف افغان فریقوں میں اسی طرح خانہجنگی شروع ہو سکتی ہے جیسے سوویت افواج کے انخلا کے بعد شروع ہوئی تھی۔
پاکستان اور چین افغان تنازع کے پُرامن حل کیلئے طالبان اورافغان حکومت میں براہ راست مذاکرات کے خواہاں ہیں کیونکہ مستقبل کے نظام کی تشکیل اسی طرح ممکن ہے۔ مذاکرات کے اگلے مرحلے میں جسکا اہتمام بیجنگ میں کیا جائیگا، بین الافغان مذاکرات کی جانب پیش رفت کی جا سکے گی۔ چین، پاکستان اور افغان حکومت کی مشترکہ کاوشوں سے اگر بین الافغان مذاکرات کی راہ کھل سکے تو اس سے وقت کی وہ اصل ضرورت پوری ہو گی جسکے بغیر افغانستان میں کسی ایسی متفقہ اور پائیدار حکومت کا قیام ممکن نہیں جو اس ملک اور خطے کے امن و استحکام کی ضمانت بننے کی اہلیت رکھتی ہو۔ چین کی افغانستان میں بحالیٔ امن کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔ اس وقت اگرچہ امریکہ کے ساتھ ساتھ روس بھی بحالیٔ امن کیلئے افغانستان کے مختلف اسٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کر رہا ہے لیکن چین نے اپنے طور پر جو کوششیں شروع کی ہیں، وہ خوش آئند ہیں۔ امریکہ نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے کئی دور کرائے جبکہ روس نے ماسکو میں امن کانفرنسز کا انعقاد کیا۔چین کی کوششوں میں خطے کے دیگر ممالک خصوصاً شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو بھی شامل کرنا چاہئے کیونکہ اب ہمیں یہ بتانے والا کوئی نہیں ہے کہ افغانستان میں کیا نیا کھیل شروع ہونے والا ہے۔ ہمیں چینی سیاسی قیادت کے وژن سے رہنمائی لینا چاہئے۔
افغانستان میں دو عشروں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لئے طالبان قیادت اور امریکی حکومت کے درمیان تیزی سے کامیابی کے مراحل طے کرتا مذاکراتی عمل اپنے حتمی مرحلے میں خدشات کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ یہ صورتحال امن کے خواہاں دنیا کے ہر شخص کے لیے بجا طور پر فکرمندی کا باعث ہے۔افغانستان کے نائب صدر دوم سرور دانش امریکہ طالبان معاہدے میں طالبان کے لیے ’’اسلامی امارت‘‘ کی اصطلاح افغان حکومت کے لیے ناقابلِ قبول قرار دے چکے ہیں کیونکہ اسکا مطلب طالبان کو ایک حکومت کی حیثیت سے تسلیم کر لینا ہے۔افغان حکومت امریکہ طالبان معاہدے پر دستخط سے پہلے ماہِ رواں کے اواخر میں طے شدہ صدارتی انتخابات کے انعقاد کی خواہش مند ہے جبکہ صدر ٹرمپ کی پہلی ترجیح امن معاہدے پر دستخط ہیں اور زلمے خلیل زاد کہہ چکے ہیں کہ امریکی افواج کے انخلا کے لیے ہونے والے امن معاہدے کو صرف صدر ٹرمپ کی منظوری کی ضرورت ہے۔جبکہ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے پر دستخط کرنے سے اس وجہ سے انکار کیا ہے کیونکہ وہ ایسا معاہدہ نہیں چاہتے جسکا مطلب طالبان کو ایک حکومت کے طور پر تسلیم کر لینا ہو۔
افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ کو اس سال 25دسمبر کو پورے 40سال ہو جائیں گے۔ آج تک وہاں جو ہو رہا ہے، وہ اسی جنگ کا تسلسل ہے۔ 15مئی 1988ء سے سوویت افواج کا وہاں سے انخلا شروع ہوا۔ اسکے بعد وہاں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ 1996ء سے 2001ء طالبان کی حکومت رہی، ستمبر 2001ء امریکہ میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ اسکے بعد القاعدہ اور طالبان کو ختم کرنے کے بہانے امریکہ اور اسکی اتحادی نیٹو افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں، جنکے انخلا کی باتیں پچھلے پانچ سال سے چل رہی ہیں۔ان چالیس سالوں میں جو تباہی افغانستان میں ہوئی، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔صرف افغان قوم ہی برباد نہیں ہوئی، پاکستانی قوم نے بھی تاریخ کے بدترین نقصانات اور بربادی کا سامنا کیا ہے۔خوں ریزی کے جن حالیہ واقعات کی وجہ سے صدر ٹرمپ نے مذاکرات منسوخ کیے ایسے واقعات اب افغانستان میں بہت بڑے پیمانے پر ازسرنو شروع ہوجائیں گے۔ یہ صورتحال دنیا کو قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی سے پاک دیکھنے کے خواہاں کسی بھی شخص کیلئے پسندیدہ اور قابل قبول نہیں ہو سکتی اور ایسا ہوا بھی تو بالآخر کچھ وقت گزرنے کے بعد دوبارہ بات چیت ہی سے مسئلے کا حل نکالنا ہوگا، افغانستان میں امریکہ کا اٹھارہ سالہ تجربہ اور اس خطے کی پوری تاریخ یہی بتاتی ہے۔اس تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا ایک بیان امید افزاء ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی بحالی خارج ازامکان نہیں، امید ہے کہ طالبان اپنا رویہ بدلیں گے اور یہ معاملے مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوگا۔ اس صورتحال میں پاکستانی دفتر خارجہ نے بالکل درست طور پر تمام فریقوں کو صبر و تحمل کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ بلاشبہ امریکہ، طالبان، اٖفغان حکومت اور خطے کے عوام سب کا مفاد افغانستان میں پائیدار امن کے قیام ہی سے وابستہ ہے لہٰذا تمام فریقوں کو ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے مذاکرات کی جلدازجلد بحالی کو یقینی بنانا چاہئے۔
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔