اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، پاکستان توڑنے کا زہریلا بیج جسٹس منیر نے بویا جو پروان چڑھا اور دسمبر 1971میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا، غلط فیصلہ ایک کرے یا اکثریت غلط ہی رہے گا،
ازخود نوٹس کی شق مظلوموں کے لیے رکھی گئی تھی کسی کو فائدہ دینے کے لیے نہیں، اس کا استعمال انتہائی احتیاط سے کرنا چاہیے،اسلام آباد میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ دسمبر 1971میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا، ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی،آئین پاکستان قومی وحدت کی علامت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ ہمیں 7سبق دے چکی ہے اور کتنی بار سکھائے گی، آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملے گا،
انہوں نے کہا کہ نمبرز گیم سے جھوٹ سچ میں تبدیل نہیں ہوسکتا، ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ پاس ہے،کہیں نہیں لکھا سنیئر جج یا چیف جسٹس کا اختیار ہے،سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز ہیں،جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آج بھی اگر ریفرنڈم کروانا چاہیں تو شاید ہی کوئی کہے کہ جسٹس منیر کا فیصلہ درست تھا،انہوں نے کہا کہ ہم آئین پاکستان کی پچاسویں سالگرہ منا رہے ہیں، یہ آئین پاکستان کے ہر شہری کی دستاویز ہے، اس میں حال میں جو چیزیں ہوئی ہیں انہیں سمجھنا چاہیے،
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ پاکستان کے قیام کی سوچ تھی کہ مسلمانوں کا استحصال سے پاک ملک ہو جہاں وہ اپنی مرضی سے رہ سکیں، آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ پیغام بند کمرے میں نہیں برصغیر کے کونے کونے تک پہنچایا گیا،انہوں نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست وجود میں آئی لیکن کام ادھورا رہ گیا، دستور ساز اسمبلی 7سال تک کام کرتی رہی، آئین تیار ہونے کی نہج پر پہنچا تو سرکاری ملازم غلام محمد نے آئین کو ٹھوکر مار دی،
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ 1956کی دستور ساز اسمبلی میں کوئی انتخابات نہیں ہوئے اور وہ 2سال میں دم توڑ گئی، ایک سرکاری ملازم نے فیصلہ کیا میں عقل کل ہوں اور 1958 کا مارشل لا آگیا،انہوں نے کہا کہ اس عقل کل نے 1962کا آئین خود بنا لیا اور جمہوریت ختم کردی، سرکاری ملازم کے خیال میں عوام باشعور نہیں ان میں عقل نہیں اس لیے فلٹر ہونا چاہیے۔