اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)عید قربان قصائیوں کے لئے روزگار کے حوالے سے سال کا سب سے بڑا سیزن ہوتا ہے جس میں وہ گھنٹوں میں ہزاروں روپے کمالیتے ہیں جب کہ پیشہ ور قصائیوں کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت تجربہ رکھنے والے عام افراد بھی دیہاڑی لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
نماز عید کے فوراًبعد جانور کو ذبح کرنے کے لئے قصائی کے ریٹ زیادہ ہوتے ہیں جب کہ بعد کے اوقات میں اور پھر دوسرے اورتیسرے روزمعاوضہ کم ہوجاتا ہے۔قصائی چربی بیچ کر بھی اضافی کمائی کرتے ہیں۔قصائیوں سے حاصل معلومات کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں کے لحاظ سے قصائیوں کے مختلف ریٹ چل رہے ہیں جس میں پوش علاقوں، فینسی اور بھاری بھرکم جانوروں کے ریٹ زیادہ ہوتے ہیں۔ نماز عید کے فورا ً بعد بکرا ذبح کرنے کا معاوضہ2500روپے سے5 ہزار روپے ہے اور بعد کے اوقات میں 1500روپے سے 5 ہزار روپے لئے جاتے ہیں۔ بڑے جانور کو نماز عید کے بعد ذبح کرنے کے 8 تا10 ہزار روپے لئے جاتے ہیں لیکن بعد کے اوقات میں یہ معاوضہ 5 سے8 ہزار روپے ہوجاتا ہے۔
اسی طرح فینسی جانور کے ذبح کا معاوضہ پہلے روز 15 سے30 ہزار روپے ہوتا ہے اور بعد میں 10 سے 15 ہزار روپے ہوجاتا ہے۔ بعض قصائی اکیلے جانوروں کی بکنگ کرتے ہیں اور وہ بکرے تو اکیلے ذبح کرتے ہیں لیکن بڑے جانور میں مدد گار رکھتے ہیں جب کہ زیادہ تر قصائی اپنے ساتھ نسبتاً کم تجربہ کار قصائیوں کے گروہ کے ساتھ ایک ہی جگہ زیادہ جانوروں کے کنٹریکٹ لیتے ہیں۔کیا قصائی آپس میں معاوضے کی رقم کو برابر بانٹتے ہیں؟بعض قصائی مل کر کنٹریکٹ لیتے ہیں اور ملنے والے معاوضے کو برابر برابر تقسیم کرلیتے ہیں لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے۔
مجید نامی قصائی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر تجربہ کار قصائی جس کو استاد کہا جاتا ہے، دینی مدارس،فلاحی اداروں،انجمنوں اور فیملی کی سطح پر قربانی کرنے والے ایسے افراد سے کنٹریکٹ لیتا ہے جو بڑی تعداد میں جانور قربان کرتے ہیں۔ کنٹریکٹ لینے اور نرخ طے پانے کے بعد اپنے ساتھ کم تجربہ کار قصائیوں کو دیہاڑی پر کام پر لگا لیتے ہیں۔ قصائیوں کے تجربے کے لحاظ سے 2 ہزار سے 10 ہزار روپے تک دیہاڑی دی جاتی ہے یعنی قصائی تجربے کے لحاظ سے 3 دن میں 6 ہزار روپے سے30 ہزار روپے کما لیتے ہیں۔
ایک بکرے کو ذبح کرنے اور کٹائی کے بعد صفائی میں 1 گھنٹہ لگتا ہے جب کہ بڑے جانور پر اگر ایک قصائی ہو تو تقریباً ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں تاہم اگر گروپ ہو تو ڈیڑھ گھنٹے میں کام مکمل ہوجاتا ہے۔ بوٹیاں چھوٹی کرنے،چربی صاف کرنے اور ہر حصے کا الگ الگ گوشت کرنے میں اضافی وقت لگ جاتا ہے۔ استاد کو دیہاڑی دینے کے بعد ایک محتاط اندازے کے مطابق 30ہزار روپے یومیہ اور 3 روز میں 90ہزار روپے تک بچ جاتے ہیں۔قصائی چربی بیچ کر بھی کماتے ہیں،شہباز نامی قصائی کے مطابق گوشت بنانے اور صفائی کے دوران چربی بھی نکلتی ہے جس کا بڑا حصہ ضائع کرنے کے لئے الگ کیا جاتا ہے۔
قصائی اس کو فالتو کہہ کر چربی کو جمع کرتا ہے اور چربی کے بیوپاریوں کو بیچ دیتے ہیں (بیوپاری اس چربی کو صابن کی فیکٹریوں،کباب بنانے والوں کو فروخت کرتے ہیں لانچ کی لکڑی کو پانی نقصان بچانے کے لئے بھی چربی ملی جاتی ہے)۔قصائی چربی 50 روپے سے70 روپے فی کلو میں بیچ دیتا ہے جب کہ پگھلی ہوئے چربی کے نرخ 90 روپے سے 110روپے فی کلو ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 3 من کے جانور میں کم از کم 30کلو چربی نکلتی ہے اور اس حساب سے بڑے جانوروں سے چربی کی ضمن میں2 ہزار روپے تک اضافی مل جاتے ہیں۔
موسمی قصائیوں کو بھی اچھی دیہاڑی مل جاتی ہے،پروفیشنل تجربہ کار قصائیوں کی تعداد اتنی نہیں ہے جتنی ڈیمانڈ ہے،اس لئے ناتجربہ کار قصائی بھی گروپ میں دیہاڑی پر کام کرتے ہیں اور بعض اکیلے بھی جانور ذبح کرتے ہیں۔ شاہد نامی قصائی کا کہنا ہے کہ جانور ذبح کرنا اتنا مشکل کام نہیں ہے۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد خود ہی اپنے قربانی کے جانور ذبح کرتے ہیں اور گوشت کی صفائی اور ٹکڑے بنانے کا کام میں بھی خود کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پیشہ ور قصائی کم وقت لگاتا ہے، صفائی سے کام کرتا ہے اور تمام گوشت کو ملانے کے بجائے ہر حصے کا گوشت الگ الگ کیا جاتا ہے جب کہ بوٹیاں چھوٹی اور چربی کی صفائی اچھے طریقے سے کی جاتی ہے۔
اس کے مقابلے میں ناتجربہ کار قصائی گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے بنا دیتا ہے اورصفائی اچھی طرح نہیں کرتے جب کہ کھال کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور گردن،دستہ، ران اور دیگر حصوں کے گوشت کو آپس میں ملا دیتے ہیں۔تاہم قصائیوں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کی بہت زیادہ ڈیمانڈ نہ ہوں ان کے لئے یہ ناتجربہ کار قصائی بھی کافی ہوتے ہیں۔