پاکستان کے ضلع لاہور سے تعلق رکھنے والے محمد عثمان نے اپنے ساری عمر تعلیم اور ڈگریاں حاصل کرنے میں صرف کر دی۔ ان کا سفر ایف۔اے اور بی۔اے کے امتحان میں فیل ہونے سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں ان کے دوست زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہے تھے اور مادی دنیا میں اپنا مقام پیدا کرنے میں مصروف تھے تو وہاہی عثمان بیرونی ملک سفر کرنے کی بجائے لاہور کی مشہور دانش گاہ جی سی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں داخلہ لیا اور فورتھ پوزیشن حاصل کی۔ اس ایم اے کے بعد ان کو کافی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ ایسے مضمون میں ایم اے کرنے کا کیا فائدہ جس کا بظاہر کوئی مستقبل نہیں اور نہ نوکری موجود ہے۔
لیکن ان کا خیال تھا کہ تعلیم نوکری کے حصول کے لیے حاصل نہیں کرنی چاہیے۔ ان کے نامور اساتذہ اکرام نے ان کو سی ایس ایس اور پی ایم ایس کے امتحانات کی تیاری کی طرف مائل کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر انہوں نے ایک نہ ماننی اور ایم اکنامس شروع کردیا۔ اسی دوران اوریکل سرٹیفکیشن کے امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کرلیا۔ اس طرح محمد عثمان کا لاحاصل سفر کا آغاز ہوتا ہے اور ڈگریاں حاصل کرنے کی لگن میں مگن ہو جاتے ہیں۔ وقت تیزی سے گزارتا گیا اور ان کے دوست دنیا کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے لیکن عثمان صاحب کو اس بات کی کوئی فکر اور احساس تک نہ ہوا۔ ڈگریاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ گیارہ برس داتا صاحب کے دربار جھڑو دیتے رہے ۔
محمد عثمان کے دوستوں نے ان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ کیونکہ یہ ان کی نوجوانی کا دور تھا جہاں مستقبل کی فکر میں نوجوانوں کی رات کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔ ان کی زندگی میں ٹرننگ پائنٹ اس وقت آیا جب ان کی تیس سالہ بیگم کی اچانک موت ہوگئ۔ اس غم اور رنج میں انھوں نے تعلیم کو تنہائی کا ساتھی بنایا اور اپنا دھیان ہٹنے کے لیے یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں داخلہ لیا۔ اس کے ساتھ مختلف سرٹیفکیٹس بھی شروع کیے۔
2010 سے 2020 کی دہائی میں عثمان کی زندگی میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی اور یہ ڈپریشن اور غم کو بھولنے کے لیے ڈگریاں کرنے میں مصروف ہوگئےاور انہوں نے پرسکون انداز سے تعلیمی سفر جاری رکھا اور 22 برس کی سخت محنت اور یکسوئی کے ساتھ پاکستان کی 21 نامور یونیورسٹیز سے ساٹھ کے قریب ڈگریاں و سرٹیفکیٹس حاصل کرلیں جن میں پانچ ایم فل، آٹھارہ ایم اے/ ایم ایس سی، دس سے زائد پوسٹ گریجویٹ ڈپلومے، دو اعداد چار سالہ ڈپلومے، کئی ڈپلومے اور سرٹیفکیٹس شامل ہیں۔ ان سب کامیابیوں کے باوجود ایک معمولی سے سرکاری نوکری کر رہے ہیں اور اپنی قابلیت کی بدولت محکمہ کے آفسران و ملازمین کے ہمیشہ نشانے پر رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ایڈیشنل سیکرٹری نے اپنی فرعونیت کا نشانہ بنایا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ ایک طرف تعلیمی کامیابیاں ہیں تو دوسری طرف ملازمت کے مسائل بے۔ محدود وسائل کے باوجود یہ ڈگریاں محنت ، لگن شوق، تندہی، جنون اور نوکری میں مشکل ترین حالات کے ساتھ مسلسل جدوجہد کرنے کے بعد حاصل کی۔
اگر ان کا فوکس دنیاوی ترقی کی طرف ہوتا تو آج حالات یقینی طور پر مختلف ہوتے۔ ان کو تعلیمی کیریئر کے دوران اچھے استادوں کی صحبت میسر آئی لیکن اس کمپنی نے ان کی زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالا اور عثمان نے تعلیم و ڈگریوں کے حصول کے لیے دوسرے صوبوں سمیت دیگر شہروں کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ جس میں رحیم یار خان، بہاولپور، بہاولنگر، ملتان، اسلام آباد، پشاور، جام شورو، گلگت ، سرگودھا، ساہیوال، میرپور، مردان، فیصل آباد اور ڈی آئی خان وغیرہ شامل ہیں۔ 44 سالہ محمد عثمان نے قابل فخر کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ ڈگریاں، ڈپلوامے، سرٹیفکیٹ کورسز معاشیات، تعلیم، اردو، ماحولیاتی سائنس، تاریخ، جرنلزم اینڈ ماس کیمونی کیشن، قانون، کلچر، فلاسفی، بزنس ایڈمنسٹریشن، اپلائڈ، تاریخ، نفسیات ، عمرانیات، رورل ڈویلپمنٹ، فارسی، کشمریات، اسلامیات، فزیکل ایجوکیشن اور انٹرنیشنل ریلیشنز، ایم ایڈ، بی ایڈ ،قانون شریعہ، فقہ، قرآن، حدیث، ابتدائی اسلامی قوانین، ماحولیاتی قوانین، پشتو، سندھی،گورمکھی، چائنیز، روسی، ترکی، عربی، طب، ہومیوپتھی، اوریکل ریلیس 6/6i/ 2 اور گرافکس ڈیزائن وغیرہ میں ہیں۔
تعلیمی اسناد حاصل کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں کیونکہ اس کیلئے سخت محنت، پیسے، انرجی اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے تاہم عثمان نے جنون سے ڈگریاں حاصل کر تو لی ہیں مگر ان کی ساری عمر اسی کام میں گزار گئی۔ ان کے چار ریسرچ ارٹیکل Y کیٹگری کے مختلف جرنلز میں پبلش ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 66 سے زیادہ کالم مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔اس وقت پاکستان سمت پوری دنیا کے کسی بھی سرکاری و نیم سرکاری ادارے میں کسی بھی آفیسر یا آفیشل کے پاس اتنی ڈگریاں نہیں۔ عثمان نے کئی برسوں کی سخت لاحاصل محنت سے ایک عظیم الشان مثال قائم کر دی شاہد دنیا میں ایک مفرد ریکارڈ بھی اپنے نام کر لیا ہے