لاہور (کورٹ رپورٹر) آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کے خلاف متفرق درخواست لاہور ہائیکورٹ میں دائر کر دی گئی جس میں حتمی فیصلے تک آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو معطل کرنے کی استدعا کی گئی۔
محمد مقسط سلیم ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں وفاقی حکومت، وفاقی وزارت قانون اور داخلہ کو فریق بنایا گیا ہے۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی کا بیان سامنے آیا کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ پر دستخط نہیں کئے، ایکٹ درست طریقہ کار کے مطابق پاس نہیں ہوا۔
درخواست میں یہ بھی موقف پیش کیا گیا کہ آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ ماورائے آئین ہے، ایکٹ کے تحت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر آئینی اختیارات دے دئیے گئے ہیں، جس کے تحت پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی شہری کے گھر بلا وارنٹ داخل ہوسکتے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ نئے قانون کے تحت گرفتار فرد کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنا لازم نہیں، جب کہ آئین کا آرٹیکل چار تا انیس اے شہریوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت آفیشنل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کی شق 2، 4 اور 11 کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے کالعدم کرے اور عدالتی فیصلہ آنے تک قانون پر عملدرآمد روکتے ہوئے حکم امتناعی جاری کیا جائے۔
واضح رہے کہ آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل کے قانون بننے کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے تاہم صدر مملکت عارف علوی نے ایک ٹویٹ میں آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں تو ان قوانین سے اختلاف کرتا ہوں، میں عملے کو بل واپس بھیجنے کا کہنا تھا لیکن اس نے حکم عدولی کی۔