زاہد یعقوب عامر
چھوٹے چھوٹے, ننھے بچوں کے بازؤں اور کلائیوں پر کبھی بال پین سے بنی گھڑی دیکھی ہے ؟ کچھ یاد آیا؟ جب چائنا کی گھڑیوں کی بھرمار نہیں ہوئ تھی توہمارے بڑے ہم بچوں کو بہلانے کے لئے ان کے بازو پر بال پین ,پنسل ,یا انک پین سے ایک گھڑی بنا دیتے تھے. یہ کھلونے کی مانند تھی.
یہ بچوں کو بہلانے کے لئے خوشی اور کھیل تھی. یہ ہمارے بچپن کی خوبصورت یادوں میں سے ایک ہے. یہ ہمارے بچپن کی کھو جانے والی باتوں اور یادوں میں سے ایک ہے. اب تو یہ شوقِ تماشہ ہی نہ رہا. اب تو یہ کھیل اور اس گھڑی کی چاہت نہ رہی. بچپن سے گھڑی اور بھلا وقت ہی چھین لیا گیا. بچپن, بچپن نہ رہا, ہم سب کی مصروفیت بن گیا. ماہ و سال لمحے بن گئے. یادیں میموری کارڈ اور پاس ورڈ کے سپرد کر دی گئیں.
وہ گھڑیاں اصل نہ تھیں مگر اس کو پا کر بچے خوش ہوتے تھے اور بڑے ان کی خوشی سے مزید خوش ہوتے تھے.
ہزاروں سال قبل سے یونانیوں کے پاس پانی, ریت, سورج اور روشنی کی گھڑیاں مستعمل تھیں. انسان وقت کی اہمیت کو سمجھنے لگا تو پورے دن کو تقسیم کرنے کا خواہاں ہوا. اسے لگا کہ دن کو مختلف حصوں میں بانٹ دیا جائے. یہ تو ہو گیا مگر انسان خود بھی کئ جصوں میں بٹ گیا.
گھڑی کے موضوع پر بہت سی باتیں ذہن میں ابھر رہی ہیں. چلیں اسی بچپن کی طرف واپس چلتے ہیں. پیانو بال پین سے بازو پر گھڑی بنا دی جاتی. بچے پہروں اس کی حفاظت کرتے. پانی سے بچاتے. وقت بتاتے اور احساس تفاخر جاگ اٹھتا. یہ ایسا کھیل اور کھلونا تھا جو پاس نہ موجود ہو کر بھی خوشی کا احساس دیتا تھا.
اسی دور میں راڈو گھڑی کا رواج عام ہوا. پردیس میں مزدوری کرکے واپس پلٹنے والا ہر شخص راڈو گھڑی, بوسکی کا سوٹ اور طلے والی چپل پہننا لازمی لباس سمجھتا تھا. کسی شادی میں دلہے کے لئے کوشش کی جاتی کہ بطور تحفہ اس کے لئے راڈو گھڑی خریدی جائے. یہ مجھے اس لئے بھی یاد آگیا کہ اپنے ایک عزیز کے لیے شادی کے موقع پر راڈو گھڑی خریدی گئ تھی. اس عزیز نے اسی گھڑی کے چلتے وقت کے ساتھ ہر طرف افسوس, درد, تکالیف, آلام اور دکھ بانٹے تھے.
اس نے راڈو گھڑی نہ بھی پہنی ہوتی تو ایسا ہی انداز عمل برتتا. بچپن کی یادوں میں اس کے بازو پر بندھی گولڈن راڈو گھڑی بھی کہیں نہاں خانوں میں مقید ہے. اس کے بعد راڈو گھڑی کبھی اچھی نہیں لگی. گھڑی بازو پر بندھی ہو یا بال پین سے بنی ہو دونوں وقت سے جڑی ہیں. وقت ساکت یا موجود دونوں صورت انسان کو وقت کا پابند رکھتا ہے.
بچوں کی گھڑی ان کے پاس موجود نہیں تھی مگر وقت خوشی سے بھرپور تھا. اس کا مطلب کسی چیز کا اپنے پاس موجود ہونا یا پا لینا خوشی کا سبب نہیں. دولت پیسہ, آسائشیں پاس ہونے کامطلب ہرگز نہیں کہ اسے انجوائے کرنے کی مہلت وسکت بھی میسر ہو.
وہ گھڑی جو کبھی میرے اور میرے ہم عصروں کے بازؤں پر منقش تھی اصلی گھڑیوں میں بدل گئ.
گھڑی ہاتھ آ گئ مگر وقت ہاتھ سے پھسل گیا.
گھڑی فرانس, جرمنی, برطانیہ اور پھر چین سے امپورٹ ہوئ, لوگ بطور تحفہ لائے مگر وہ خوشی نہ دے پائے جو ایک گھڑی کوبازو پر پیانو بال پین سے بنا کر ملتی تھی. جسے مٹنے نہیں دیا جاتا تھا. جسے وقت بتانے نہیں وقت کو قابو کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا. سب گھڑیاں بدل گئیں. اپنی آنکھ کی گہرائ میں عدسہ دبائے گھڑی ساز بھی ماضی کی یادوں میں دب گئے. کہیں کہیں, کبھی کبھار کوئ مل جائے تو بہت ہی مختلف ہنرمند انسان محسوس ہوتا ہے جو چھوٹے چھوٹے پرزوں کو باہم جوڑ کر رکھنے کی کوشش کرتا ہے.
آج کے بچوں کے پاس ڈیجیٹل واچ اور گیجٹ ہیں,مگر وقت نہیں ہے. بستے بھرے اور ذہن خالی ہیں. دل میں خدشے اور جیتنے کی لگن مگر مقابلہ دوسروں سے ہے, اپنے آپ سے مقابلہ بالکل بھی نہیں ہے. وقت نے گھڑیوں میں سیل ڈال دیے اور چابی ہماری زندگیوں کو دے دی ہے. وقت گھڑی کی سوئیوں کی حرکت کے ساتھ ساتھ منادی بھی کرتا ہے کہ انسان سنبھل جاؤ, وقت کے ساتھ چلو, دھیرے چلو, سمجھ کر چلو…اس اعلان کے ساتھ ہی زندگی سے ایک لمحہ پھسل کر ماضی کے بینک میں جمع ہو جاتا ہے. اس بینک میں جہاں کوئ کرنٹ اکاؤنٹ نہیں ہے. جہاں پر تمام کھاتے ہمیشہ نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر کھولے جاتے ہیں.
فیض احمد فیض فرماتے ہیں,
بے وفائی کی گھڑی، ترک مدارات کا وقت
اس گھڑی اپنے سوا یاد نہ آئے گا کوئی
ترک دنیا کا سماں ,ختم ملاقات کا وقت
اس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے
اس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں رہنے دو
کوئی اس وقت ملے گا ہی نہیں رہنے دو
اور ملے گا بھی اس طور کہ پچھتاؤگے
اس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤگے
(زاہد یعقوب عامر)