از قلم: یاسر رؤف جوئیہ
_________________________________________
اگر ایک دیہاتی تھانے میں 80 گاؤں آتے ہیں اور وہاں صرف 12 کانسٹیبلز اور 4 تھانیدار تعینات ہیں تو وہ ہر وقت اور ہر جگہ دستیاب نہیں ہو سکتے۔ اس صورت میں اگر کہیں کوئی واردات ہو جاتی ہے تو اس کا ذمہ دار خالصتاً پولیس کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی بھی واقعہ چھپا نہیں رہ سکتا۔ معلومات کی ترسیل سیکنڈز میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح جرائم کی وقوع پذیری کا احوال بھی فوراً سوشل میڈیا کی دنیا کی توجہ کھینچتا ہے۔ کسی گلی کوچے میں چوری، رہزنی یا ڈکیتی کی واردات ہو تو اسکی خبر فوری طور پر شئیر ہو جاتی ہے۔
کسی بھی واقعے کا احوال دوسروں تک پہنچنا اچنبھے کی بات نہیں تاہم معاملہ تب خراب ہوتا ہے جب خبر کی آڑ میں سنسنی پیدا کی جاتی ہے جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیلتا ہے اور بد امنی کی سی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھایا جاتا ہے اور عدم اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ پولیس مقابلوں میں مارے جانے کے باوجود بھی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ پولیس افسران ان جرائم پیشہ عناصر سے مقابلے کے دوران اپنی جانیں بھی قربان کر رہے ہیں لیکن وارداتیں رک نہیں پا رہیں۔ ان وارداتوں کے محرکات کیا ہیں اور کیوں وقوع پذیر ہوتی ہیں اسکا تجزیہ از حد ضروری ہے۔ بطور پولیس افسر میرا واسطہ جرم اور مجرم سے پڑتا رہا ہے اور ایسے جرائم کے مختلف محرکات ہیں جو ان وارداتوں کی وقوع پذیری میں کارفرما ہوتے ہیں۔
سب سے پہلی اور بڑی وجہ وسائل کا فقدان اور مسائل کا انبار ہے جو غربت کی صورت میں ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ جب کسی شخص کو خاص طور پر وہ نوجوان ہو اپنی اور اپنے بال بچوں کی بھوک مٹانے کے لالے پڑے ہوں تو اکثر اوقات وہ پریشانی اور غصے میں اس راہ پر چل نکلتا ہے اور معمولی چوری سے لیکر ڈکیتی مع قتل تک سے بھی باز نہیں آتا۔ اس کیلئے ہر سزا اور اخلاقیات بے معنی ہو جاتی ہیں اور وہ جرم کی راہ پر چل نکلتا ہے جہاں سے واپسی بہت مشکل ہے۔
دوسری بڑی وجہ خواہشات کی تکمیل ہے۔ بعض نوجوان سوشل میڈیا اور ٹی وی کی چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل کیلئے اس راہ پر چل نکلتے ہیں جس کے انجام کی انہیں خبر تک نہیں ہوتی اور یوں وہ عام نوجوان سے ایک عادی مجرم کا روپ دھار لیتے ہیں۔
تیسری بڑی وجہ ہماری جیلیں ہیں جہاں جانے والا شخص جب واپس آتا ہے تو وہ مکمل توبہ تائب ہو چکا ہوتا ہے یا پھر وہ جیل سے ایک مکمل مجرم بن کر باہر نکلتا ہے۔ جیل میں اسے ہر طرح کے مجرم ملتے ہیں جو اسکو نت نئے طریقوں سے آگاہ کرتے ہیں اور بعض اوقات وہاں کی دوستی باہر آ کر جرائم پیشہ گینگز کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
کچھ لوگ یاری دوستی میں ایڈونچر کی خاطر وارداتیں کرتے ہیں اور پھر جرم کی دنیا کی لت انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتی۔
موجودہ مہنگائی کی لہر اور بیروزگاری نے بھی وارداتوں کی شرح میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مہنگائی اور بھوک سے مارا نوجوان اسلحہ اٹھاتا ہے اور بنا کوئی خاص محنت کئے چند لمحوں میں لاکھوں کما لیتا ہے چاہے اسکا انجام کوئی بھی ہو۔
ایک اور بڑی وجہ نشے کی لت بھی ہے۔ نشے کا عادی شخص اپنا نشہ پورا کرنے کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک نشہ پورا کرنے کیلئے کوئی بھی جرم معمولی ہوتا ہے چاہے وہ کسی کی جان لینا ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے شخص کو تب تک جرم سے باز نہیں رکھا جا سکتا جب تک اسکی نشے کی لت ختم نہ کی جائے۔
ان جرائم پیشہ افراد کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا۔ کہیں مزاحمت میں گولی کا شکار ہو جاتے ہیں تو کہیں پولیس مقابلے میں موت انکا مقدر ٹھہرتی ہے۔ کبھی کسی کے جوابی فائر میں عمر بھر کی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں اور کہیں اپنے والدین اور عزیز و اقارب کو روتا چھوڑ کر راہی ملک عدم ہوتے ہیں۔
واردات کی صورت میں زیادہ تر کوسنے ایس ایچ اوز اور مقامی پولیس کو ملتے ہیں اور ڈکیتی کی واردات کو چوروں اور ڈاکوؤں کی جانب سے ایس ایچ او کو سلامی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ گویا ایس ایچ او نا اہل ہے یا اسکی کوئی ملی بھگت شامل ہے۔ کیا واقعی ایس ایچ او نا اہل ہوتا ہے یا اس کی ملی بھگت شامل ہوتی ہے؟
ایس ایچ اوز اپنے علاقہ تھانہ میں امن و امان کے قیام کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ انکا کام جرائم کی تفتیش کیساتھ روک تھام کرنا بھی ہوتا ہے۔ ہر دو فرائض کی ادائیگی کیلئے انسانی و مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالمی معیار کے مطابق ہر 451 شہریوں پر ایک پولیس اہلکار متعین ہوتا ہے تاہم 12 کروڑ کی آبادی کیلئے 2 لاکھ سے بھی کم فورس ہے جس میں سے ایک بڑا حصہ سی پیک، وی آئی پی اور وی وی آئی پی ڈیوٹیز پر تعینات ہے جبکہ تھانوں میں نفری کی ہمیشہ سے کمی رہی ہے۔ محدود وسائل کیساتھ پولیس اہلکار اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہوتے ہیں اور ان وسائل میں بھی مسائل کے باوجود اپنی ذمہ داریاں بخوبی ادا کر رہے ہیں۔
بڑھتی ہوئی وارداتیں ہر افسر مہتمم تھانہ اور نگران افسران کیلئے پریشانی اور دباؤ کا باعث بنتی ہیں اور یہ انکی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہوتا ہے۔ وارداتوں پر عوامی حلقوں کی جانب سے بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں اور کہیں دبے لفظوں تو کہیں کھلے عام پولیس پر الزام دھرا جاتا یے۔
تاہم ترقی یافتہ دنیا میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں اگر جرم وقوع پذیر ہو تو اسکا ذمہ دار پولیس افسر نہیں۔ ہاں! اگر اس جرم کے مجرم کا سراغ نہ ملے یا وہ قانون کی گرفت میں نہ آئے تو اس کا ذمہ دار پولیس کو ضرور ٹھہرایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔ ہم جرم کا ذمہ دار بھی پولیس کو ہی ٹھہراتے ہیں۔
تاہم ان وارداتوں کا تدارک کرنا پولیس کی سب سے پہلی ذمہ داری ہے۔ بطور پولیس افسر میرا مشاہدہ ہے کہ سمارٹ پولیسنگ کے ذریعے وارداتوں پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ گشت کو موثر بنا کر اور اسمارٹ پٹرولنگ کے ذرہعے وارداتیوں کو مشکل میں ڈالا جا سکتا ہے کیونکہ واردات کرنے والے مجرمان پولیس سے آمنا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔
اس کی ایک مثال جاوید صدیق ماڈل ہے جو حال ہی میں بطور ڈی ایس پی پنجاب پولیس سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ جس تھانے میں جاتے تھے وہاں تین سے چار تھانیدار صرف گشت کیلئے مخصوص کر دیتے تھے جن کا کام اپنی شفٹ میں موثر گشت یقینی بنانا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں تھی۔ اس طرح پولیس موبائلز کا ہر وقت علاقے میں رہنا جرائم پیشہ عناصر کو نکیل ڈالنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
دوسرا اہم کام جو ایک افسر مہتمم تھانہ نے کرنا ہوتا ہے وہ مخبری کا ایک بہترین اور موثر جال بنانا ہے جو علاقہ تھانہ اور ملحقہ علاقوں میں موجود جرائم پیشہ عناصر کے متعلق معلومات اکٹھی کرے اور بروقت متعلقہ افسران کو آگاہ بھی کرے تاکہ جرم کی وقوع پذیری سے پہلے ہی جرم کا تدارک ہو۔
تاہم سب سے اہم ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو سہولیات فراہم کرے، آگہی فراہم کرے، تعلیم فراہم کرے اور وسائل فراہم کرے تاکہ کوئی جرم کی دلدل میں نہ دھنسے۔ جیلوں میں کونسلنگ کا مناسب انتظام ہو اور ماہرینِ نفسیات کسی مجرم کی سزا پوری ہونے سے قبل اسکا مکمل جائزہ لیں کہ یہ آئندہ کیسا برتاؤ کرے گا اور جیل سے باہر جانے کے بعد کیسا شہری ثابت ہو گا۔
مہنگائی اور بیروزگاری سے مارے نوجوان کو اگر ہنر مند بنا دیا جائے تو وہ نا صرف اپنے لئے پیسہ کمانے کے قابل ہو گا بلکہ وہ ملک کا مفید شہری بھی ثابت ہو گا۔ اس سے نا صرف جرائم کی شرح کم ہو گی بلکہ معاشرے میں بھی امن و امان قائم ہو گا۔
پولیس کو عالمی معیار کے مطابق نفری اور دیگر وسائل فراہم کئے جائیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں کماحقہ ادا کر سکیں اور عوام کو انصاف پہنچانے میں معاون ثابت ہوں۔ اگر پولیس کے پاس مطلوبہ وسائل ہوں گے تو پھر عوام ان پر تنقید میں حق بجانب ہو گی۔