اسلام آ باد (کورٹ رپورٹر ) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آرمی کی سب سے اہم چیز مورال ہوتی ہے، اگر یہ متاثر ہوتو اس کا فائدہ دشمن کو ہوگا، آرمی ایکٹ کے تحت چارج کرنے کا طریقہ رولز میں ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کسی شہری کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں شروع نہیں ہوا،
اپنے بیان پر قائم ہوں، جسٹس یحیی آفریدی نے پوچھا کہ ملٹری کورٹس بھیجے گئے ملزمان پر سیکشن 2 ڈی ون لگی ہے یا 2 ڈی ٹو؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی تک تو سیکشن 2 ڈی ٹو ہی کا اطلاق ہوا ہے۔ سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔ منگل کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے 6 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی ۔
بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کا کہنا ہے کہ میں نے بھی اس کیس میں درخوست دائر کردی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خوشی ہے سپریم کورٹ بار بھی اس کیس میں فریق بن رہی، اچھے دلائل کو ویلکم کریں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ آپ آج اس وقت درخواست دائر کر رہے ہیں؟۔ جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ درخواست ابھی آفس میں دائر ہوگئی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل کہا ہے کہ ٹرائل جاری ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متصادم ہے۔
اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے کہا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں، ابھی تک کسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔ عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ واضح کرنا چاہتا ہوں میرے دلائل صرف سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہوں گے، فوجیوں کے ٹرال پر عدالتی اختیارات سے متعلق بات نہیں کروں گا۔ جسٹس یحیی آفریدی نے اٹارنی جنرل عثمان منصور کو روسٹرم پر بلا کر کہا کہ ملٹری کورٹس بھیجے گئے ملزمان پر سیکشن 2 ڈی ون لگی ہے یا 2 ڈی ٹو؟، کل کے بعد اس معاملے کی وضاحت ضروری ہوگئی ہے۔
عثمان منصور کا کہنا ہے کہ آج تک تو سیکشن 2 ڈی ٹو ہی کا اطلاق ہوا ہے، سیکشن 2 ڈی ون کا اطلاق بعد میں ہوسکتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی فیصلے سویلین کے فورسز کے اندر تعلق سے متعلق کچھ ٹیسٹ اپلائی کرتے ہیں، کیسے تعین ہوگا کہ ملزمان کا عام عدالتوں میں ٹرائل ہوگا یا ملٹری کورٹس میں؟۔ جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ ایف بی ایل ای کیس کہتا ہے کہ کچھ سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوسکتا ہے، یہ کیس سویلین کے اندر تعلق کی بات کرتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مطابق یہ کون سا تعلق ہوگا جس پر ٹرائل ہوگا۔ عزیر بھنڈاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوگا وہ آئینی ترمیم سے ہی ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہنا ہے کہ ہم ہوا میں بات کررہے ہیں، سیکشن 2 ڈی ٹو کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں، اس سیکشن پر آپ نے عدالت کی معاونت کرنی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایمرجنسی اور جنگ کی صورت میں تو ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوسکتا ہے۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا اکثریتی فیصلہ بھی جنگی حالات کی شرط عائد کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل اسٹرکچر کی بات کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام آرٹیکل بھلے الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے، بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کرے، سویلین کا کورٹ مارشل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا، کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی۔ عزیر بھنڈاری کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے ملک میں بے چینی کی کیفیت ہوگی، ایف آئی آر میں کہیں بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہیں کیا گیا، فوج کی خدمات تو مختلف چیزوں میں لی جاتی ہے، اگر وہاں کچھ ہوجائے تو کیا آرمی ایکٹ لگ جائے گا؟۔ عزیر بھنڈاری ایڈووکیٹ نے آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ڈی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جب آپ آرمی کی بات کرتے ہیں تو اس کی سب سے اہم چیز مورال ہوتی ہے، اگر مورال متاثر ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بھی دشمن کو ہوگا، اگر کوئی چیز ایک فوجی کا مورال کم کرے تو فائدہ دشمن کو ہوتا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے؟۔ وکیل درخواست گزار نے جواب دیا جی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے، ایف آئی آر میں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر ہی نہیں ہے، ایکٹ میں تحفظ پاکستان ایکٹ ضم کرکے انسداد دہشتگردی دفعات شامل کی گئیں، 2017 ترمیم کرکے 2 سال کی انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ شواہد کے بغیر کیسے الزامات عائد کئے جاتے ہیں؟، یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے، سقم قانون میں ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا ہے کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ الزام کی تفصیل موجود ہی نہیں۔
عزیز بھنڈاری نے مزید کہا کہ ایف آئی آر انسداد دہشتگردی ایکٹ، ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے، احمد فراز پر الزام لگا تھا مگر ان کو باضابطہ چارج نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے مکل کے مطابق تو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کا فیصلہ ہی بدنیتی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کا موقف میڈیا پر نہیں چلتا، کچھ مستند آوازیں ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شکوک شبہات کا اظہار کر رہی ہیں، استدعا ہے کہ اوپن ٹرائل کیا جائے۔ ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیخلاف ایک اور درخواست گزار زمان وردک نے اپنے تحریری دلائل جمع کرادیئے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے اپنے دلائل میں کہا کہ تحریری معروضات کے ساتھ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی معلومات دوں گا، ایف آئی آر میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہ ہونے پر بھی معاونت کروں گا، ملزمان کی کسٹڈی لیتے وقت الزامات بھی فراہم کردیئے تھے، 9 مئی کے واقعے کے بعد 15 دن لئے گئے پھر ملزمان کی حوالگی کا عمل ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ کے تحت چارج کرنے کا طریقہ رولز میں ہے۔ انہوں نے استفسار کیا آپ آج اپنے تحریری دلائل جمع کرائیں گے؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تحریری دلائل وقفے کے بعد جمع کرا دوں گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ سے معروضات کی تفصیل بھی مانگی تھی۔ منصور عثمان نے بتایا کہ اس وقت 102 ملزمان ملٹری تحویل میں ہیں، ملزمان کو گھر والوں سے فون پر بات کرنے کی اجازت ملے گی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کو جو کھانا دیا جاتا ہے وہ عام حوالات سے کافی بہتر ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سادہ سوال ہے زیرحراست لوگوں کی فہرست پبلک کیوں نہیں کردیتے؟۔
جسٹس یحیی نے کہا کہ پہلے یقینی بنائیں کہ زیر حراست افراد کی والدین سے بات ہو جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عید پر ہر کسی کو پتہ ہونا چاہئے کہ کون کون حراست میں ہے، عید پر سب کی اپنے گھر والوں سے فون پر بات بھی ہونی چاہئے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فہرست عام کرنے کے حوالے سے ایک گھنٹے تک چیمبر میں آگاہ کر دوں گا۔ سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔