کاشف مرزا
عرصہ قبل لاہور میں ایڈیشنل سیشن جج محمد عامر حبیب ایک پان فروش کی اپیل پر سماعت کے دوران اُس وقت حیران رہ گئے، جب انہیں معلوم ہوا کہ بے چارے دکاندار کو محض پانچ دن قید کی سزا سنائی گئی تھی، جو چھ سال جیل میں گزارنے کے باوجود بھی ختم نہ ہوئی۔ اپیل پر سماعت کے بعد عدالت نے قرار دیا کہ ملزم جمشید اقبال کو احترامِ رمضان آرڈیننس کے تحت غلط سزا ملی اور سپیشل مجسٹریٹ نے خلاف قانون پانچ دن قید کی سزا سنائی۔فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ احترامِ رمضان آرڈیننس کی جس دفعہ کے تحت ملزم کو سزا سنائی گئی وہ آرڈیننس میں موجود ہی نہیں اور دوسری جانب ملزم کی پانچ دن قید کے خلاف اپیل کے فیصلے میں چھ سال کا وقت لگ گیا۔ عدالت نے غلط قید اور عدالتی نظام کی سستی پر درخواست گزار سے معافی مانگی۔ یہ واقعہ اس نظام کے چہرے پر دھبہ ہے،ایک شہری کے چھ سال ضائع کر دینے کی کوئی تلافی نہیں ہو سکتی۔یہ اس نوعیت کا کوئی پہلا مقدمہ نہیں ہےایسے کیسز پہلے بھی کئی بار سامنے آ چکے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تھانہ صدر صادق آباد رحیم یارخان کی حدود میں واقع گاؤں رانجھے میں عبدالقادر نامی شخص کو انکے بیٹے اکمل اور بیٹی سلمیٰ سمیت قتل کردیا گیا تھا،اس تہرے قتل کے ایک ملزم غلام فرید کو دو بار عمر قید جبکہ دیگر دو ملزمان غلام قادر اور غلام سرور کو ٹرائل کورٹ سے 3، 3 بار سزائے موت کا حکم دیا گیاتھا، جسے لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ نے بھی برقرار رکھا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس راجہ فیاض اور جسٹس فیاض پرویز نے 10 جون 2010 کواس معاملے پر اپیل باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرلی اورسپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں فل بینچ نے 6 اکتوبر 2017 کو مقدمے کی سماعت کے دوران گواہوں کے بیانات میں تضادات کی بناء پر غلام قادر اور غلام سرور کو بری کردیا، تاہم اُس وقت انکشاف ہوا کہ ان دونوں افراد کو 13 اکتوبر 2015ء کو ڈسٹرکٹ جیل رحیم یار خان میں پھانسی دے دی گئی تھی اور وہ دونوں اپنی رہائی کا فیصلہ سننے کے لیے دنیا میں موجود نہیں تھے جبکہ انکے لواحقین انصاف کے حصول کے لیے احتجاج ہی کرتے رہ گئے۔اسی طرح گزشتہ برس بھی لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے قتل کے ایک ملزم جمیل کی رہائی کا حکم دیا تھا، جسکے حوالے سے معلوم ہوا کہ جمیل 19 سال جیل میں رہنے کے بعد دو سال قبل جہلم جیل میں انتقال کرگئے تھے۔
جمیل کی رہائی کے لیے کوششیں کرنے والے انکے والد اور چچا بھی یہ خوش خبری سننے کے لیے دنیا میں موجود نہیں تھے۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے قتل کے مقدمے میں سزائے موت پانے والے ایک قیدی سید رسول کی اپیل پر 2017 میں انہیں بے گناہ قرار دے کر رہائی کا حکم دیا تو انکے لواحقین سے معلوم ہوا کہ وہ تین سال قبل 8 نومبر 2014 کو شاہ پور جیل میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرچکے ہیں۔انصاف کے فرسودہ نظام کی بناء پر ایسے بے گناہ افراد جنکا تعلق نچلے طبقے سے ہوتا ہے سزائے موت پاتے ہیں اور پھر سزائے موت پر عملدرآمد کے بعد اسکی تلافی نہیں ہوسکتی۔غلام قادر، غلام سرور اور جمیل کے مقدمات میں ثابت ہوگیا کہ سزائے موت پر عملدرآمد کے بعد باعزت بری ہونے کے باوجود یہ افراد سپریم کورٹ کے فیصلے سے فائدہ نہیں اٹھاسکے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی تمام عدالتیں، جن میں سپریم کورٹ، شریعت کورٹ، تمام ہائی کورٹ اور ڈسرکٹ کورٹس شامل ہیں، ان میں 20لاکھ سے زائد کیسز سنے جا رہے ہیں۔سپریم کورٹ میں اس وقت 38000 کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔لاہور ہائی کورٹ میں اس وقت موجود کیسز کی تعداد ملک میں سب سے زیادہ ہے جو کہ 150000 سے اوپر ہے۔ دوسرے نمبر پر سندھ ہائی کورٹ ہے جہاں 94000 کیسز ہیں۔پشاور ہائی کورٹ میں اس وقت 30000 کیسز جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ میں صرف 6000 کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں البتہ 16000 کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
اگر ڈسٹرکٹ عدلیہ کا معاملہ دیکھا جائے تو وہاں بھی پنجاب میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں واضح طور پر مقدمات کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔اس وقت پنجاب میں 11 لاکھ کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ کیسز سندھ کی ڈسٹرکٹ عدلیہ میں ہیں جہاں 96000 کیسز کہ فیصلہ ہونا باقی ہے۔بشمول سپریم کورٹ، ملک کی اعلی عدالتوں میں اس وقت ججوں کی کل تعداد 146 ہے جبکہ کل اسامیوں کی تعداد 167 ہے۔لاہور ہائی کورٹ اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں کل 60 اسامیاں ہیں لیکن وہاں اس وقت 49 جج کام کر رہے ہیں۔مقدمات کو تیزی سے نپٹانے کے لیے دوسرے ممالک میں ججوں کی تعداد آبادی کی نسبت پاکستان کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔پاکستان میں ہر دس لاکھ آبادی کے لیے 12 جج مختص ہیں جبکہ انڈیا میں یہ تعداد 18 ہے۔ اگر مغربی ممالک سے موازنہ کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ برطانیہ میں یہ تعداد 51 ہے جبکہ کینیڈا میں 75اورامریکہ میں دس لاکھ کی آبادی کے لیے 107 ججز متعین ہیں۔دوسری جانب اگر کیسز کی تعداد کو ججوں پر تقسیم کی جائے تو یہ صورتحال مزید واضح ہو جاتی ہے۔صوبہ پنجاب میں قریباً دس لاکھ سول اورفیملی کیسز کا فیصلہ ہونا باقی تھااورانھیں نمٹانے کے لیے صرف 938 ججز موجود ہیں جسکا مطلب ہے کہ ایک جج 1000 سے زیادہ کیسز کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سول اور فیملی کیسز کے لیے ججوں کی تعداد کو بڑھا کر تقریباً 2000 کرنا ہوگا تاکہ ایک جج پر 500 مقدمات کی ذمہ داری ہوگی۔ججوں کی کم تعداد مقدمات کے التوا کی وجہ تو ہیں لیکن اسکے علاوہ مقدمات کی تکمیل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہماری وکلا برادری خود بھی ہیں۔
ان حالات میں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے منصب سنبھالتے ہی انصاف کی فوری اور یقینی فراہمی کو ممکن بنانے کیلئے ایسے خاطر خواہ اقدامات کئے جو حقیقتاً وقت کی ناگزیر ضرورت تھے اور جو اب ثمر آور ثابت ہو رہے ہیں۔ جھوٹی شہادتوں اور جھوٹے گواہان کیخلاف سخت ایکشن، ججوں اور عدالتوں کی استعدادِ کار میں اضافہ، محکمہ پولیس کی بہتری کیلئے اقدامات اور ماڈل کورٹس کے قیام کے بعد اب ججوں کیلئے ریسرچ سینٹر کا قیام اُنکا ایسا اقدام ہے جو نہ صرف لائقِ تحسین ہے بلکہ اِس ریسرچ سینٹر کے قیام کے بعد کمپیوٹر کے صرف ایک کلک پر تمام کیس لاز اور ممکنہ فیصلہ بتا دے گا جس سے جج صاحبان کا قیمتی وقت بھی بچے گا اور سائلین کو فوری انصاف کی فراہمی بھی ممکن ہو سکے گی۔ اِس سے پہلے بھی عدالتوں میں ریفرنس سیکشن موجود تھے لیکن وہاں جاکر کسی مخصوص کیس کے حوالے سے ریفرنس تلاش کرنے کیلئے کافی وقت درکار ہوتا تھا، اِس ریسرچ سینٹر کے قیام سے وہی وقت مختلف کیسوں کے بروقت فیصلہ کرنے کیلئے استعمال میں لایا جا سکے گا۔
آئین کا آرٹیکل10معاشرےکے ہر فرد کو فیئر ٹرائل کا حق دیتاہے ۔ چیف جسٹس کی کوششوں سے قائم کی گئی کریمنل ماڈل کورٹس میں گزشتہ 96دنوں میں ملک بھر میں 10ہزار 600قتل اور منشیات کے مقدمات مکمل کئے گئے۔ اسی طرح جھوٹے گواہوں کیخلاف بھی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔انصاف کے عمل کو مزید تیز اور سہل بنانے کیلئے محکمہ پولیس میں بھی اصلاحات کی اشدضرورت ہے۔ اربابِ اختیار کو اِس طرف بھی اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔اسی طرح ای کورٹس سسٹم کے آغاز سے انصاف کو بلاتاخیر، سستا اور سہل بنانے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جو عدالتی نظام کی عالمی تاریخ میں منفرد باب کا اضافہ ہے،اور پاکستان اب دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جہاں الیکٹرانک سسٹم کے ذریعےاعلیٰ عدالتوں میں مقدمات کی سماعت ہوا کرے گی۔ ای کورٹ سسٹم کے ذریعے مقدمات کی سماعت کا آغازٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک بڑا اقدام ہے جس سے کم خرچے سے فوری انصاف ممکن ہو گااورسائلین پر مالی بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔مقدمات کےالتوا کےامکانات کم ہو جائیں گے ،فیصلے بھی جلد ہوں گے جس سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہو گا۔حقیقت یہ ہے کہ عدالتی سسٹم ہی نہیں ملک کے تقریباً تمام اداروں میں اصلاحات کی ضرورت ہے تا کہ انہیں جدیددور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور عوام کے لئے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند بنایا جائے۔اس وقت کئی ادارے فرسودہ طور طریقوں اور ضوابط کے مطابق کام کر رہے ہیں جنہیں جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرنےاور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔جینڈر بیسڈ وائیلنس ہماری سوسائٹی کا ایک خوفناک پہلو ہے، جسے کچھ عرصہ قبل تک ٹھیک سے جانا بھی نہیں گیا تھا،اب لاہور میں پاکستان کی پہلی جینڈر بیسڈ وائیلنس کورٹ کا آغاز کیاگیا ہے جہاں صرف جینڈر بیسڈ جرائم کی سماعت ہو گی۔ہمیں صنفی حساسیت کے حوالے سے بھی کام کرنا ہےاور کام کرنے کی جگہوں پر صنفی حساسیت بہت ضروری ہے تاکہ کوئی صنف کسی دوسری صنف کو ہراساں نہ کرسکے۔
پاکستان کے عدالتی نظام میں انصاف کی تاخیر سے فراہمی ویسے تو روایتی ہے لیکن بعض ایسے مقدمات بھی سامنے آرہے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوامی فلاح وبہبود اور انکے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے بنائے گئے سزا و جزا کے قوانین میں بے بس شہریوں پر ترس کھانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے عدالتی نظام کے خلاف سب سے بڑی شکایت مقدمات کی تاخیر سے تکمیل کے حوالے سے ہے جبکہ ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں اوسطاً 15 سے 20 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے،اسکا سارا الزام عدلیہ پر لگتاہے لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ عدلیہ پر خود کتنا دباؤ ہے۔کسی بھی لوئر کورٹ کے ایک جج کا ریکارڈ اٹھا لیں تو نظر آئے گا کہ انھیں ایک دن میں 150 سے 200 کیس سے نمٹنا ہوتا ہے جو کہ عملی طور پر ناممکن ہے۔اگر تمام کیسز کو سننا ہو تو انکے پاس فی کیس صرف ڈیڑھ منٹ کا وقت ہوتا ہے،ان حالات میں جج کیا کرے گا۔اس پورے نظام میں وسیع تر سطح پر اصلاحات لانے کی ضرورت ہےاورججزکی تعداد میں اضافہ کیا جائے،اگر وہ پھر انصاف کی فراہمی میں کوتاہی کرے توانکااحتساب کرنا چاہیے۔فوجداری مقدمات کی تفتیش اوران سےمتعلق استغاثہ کےمعیار کوبھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔انصاف کا تاخیر سے ملنا دراصل ناانصافی ہے،کئی شہری بے گناہ جیلوں میں قید جبکہ بیشتر بڑے بڑے خطرناک مجرم آزاد گھوم رہے ہیں،جوانصاف کے نظام کو چیلنج کر رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نےبرحق کہاہے کہ ہمیں عدالتی عزت کا کلچر واپس لانا ہوگا،دین،قانون اور طب کے شعبہ جات انتہائی مقدس ہیں،دھوکے بازی کی مقدس پیشے میں کوئی گنجائش نہیں۔وکیل کو ڈاکٹر سے بھی زیادہ پروفیشنل ہونا چاہئے،تحریک بحالی عدلیہ کی کامیابی کے بعدتحریک بحالی عزت وکلا کی اشد ضرورت ہے۔وکلا کی تربیت بھی لازمی ہے، ہمارے سسٹم میں تربیت کا فقدان ہے،یہاں کے برعکس برطانیہ میں ایک لاء گریجویٹ کو تربیت سے وکیل بنایا جاتا ہے،لاء کالجز کی کثرت کی وجہ سے اب سینئر وکلاء کی کمی ہو گئی ہے،اب ایسے اداروں کی ضرورت ہے جہاں نوجوان وکلاء کی تربیت کی جا سکے۔اگلاقدم پولیس ایسسمنٹ کمیٹیوں کا قیام ہےجوریٹائرڈ سیشن جج اورنوجوان وکلاء پرمشتمل ہوگی،یہ کمیٹی کسی ملزم کے مقدمہ میں بری یا ضمانت منظور ہونے پراس امر کا جائزہ لیگی کہ پولیس تفتیش میں کہاں خامی ہے، پروسیکیوشن نےاگر کیس صحیح نہیں بنایا تو متعلقہ زمےداروں کیخلاف ایکشن لیا جائیگا۔
جلدانصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ نےخاموش انقلاب برپاکردیاہے، ماڈل کورٹس سے ہائیکورٹ پر بوجھ کم ہوا ہے،انصاف کی جلد فراہمی کیلئے ماڈل کورٹس کردار ادا کررہیں ہیں، فوری انصاف کی فراہمی ہرشہری کا بنیادی حق ہے،جھوٹی گواہی دینے والوں کو سزا دیکرمثال قائم کرنی چاہیے کیونکہ یہ انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور درست ثبوت کےبغیر انصاف فراہم نہیں کیاجا سکتا۔یقیناًیہ سب کچھ وکلاء،پولیس،محکمہ جیل، پراسکیوشن کے تعاون سے ممکن ہوا، آنے والے دنوں میں عدالتی نظام میں مزید بہتری آئی گی۔نظام انصاف میں اصلاحات صرف قانون سازی سے ہی ممکن ہے۔عدالتیں اپنے فیصلوں کے ذریعے قانون نہیں بنا سکتیں لیکن جس نے اس قانون میں بہتری لانی ہے وہ اسطرف زیادہ توجہ دیںاور بہتری لائیں۔ملک میں جلد انصاف کی فراہمی کے لیے مقننہ، عدلیہ اور وکلا برادری کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،کیونکہ عدالتی عزت کےکلچر کیلئے فوری اور سستاانصاف کی فراہمی اشد ضروری ہے!
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔