شہباز شریف پلس (تحریر: زنیر چوہدری)
پاکستان مسلم لیگ ن کے موجودہ صدر ، پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور متعدد بار صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی رہنے والے میاں شہباز شریف ہمیشہ سے اپنے دبنگ سٹائل اور بھرپور ایکشن کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ افسران کی برطرفی ہو، معطل کرنا ہو یا پھر بھرے مجمعے میں ڈانٹ پلانی ہو تو شہاز شریف کا نام ہمیشہ نمبر ون پر دیکھا جا سکتا "تھا”۔
ہسپتالوں میں ایکشن سے بھرپور چھاپے ہوں، میگا پرجیکٹس کی سائٹس کے دورے ان کا کوئی ثانی نہ "تھا” سالوں کا کام مہینوں میں، مہینوں کا کام ہفتوں میں اور ہفتوں کا کام دنوں میں کیسے کروانا ہے یہ وہ ٹھیکے داروں سے بھی بہتر جانتے "تھے”۔ ہر وہ کام جس میں کنسٹرکشن ہو وہ میاں صاحب نے ہمیشہ احسن طریقے سے پورا کیا۔ "لیکن” یہ سب زمانہ ماضی کی داستان ہوچکی ہے کیونکہ اب مارکیٹ میں "شہباز شریف پلس” آچکے ہیں۔
برق رفتار کو نیا نام "محسن سپیڈ” دینے والے نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی صاحب "شہباز شریف پلس” ایک بہترین ٹھیکے دار ہیں۔ جن کا کنسٹرکشن کا شوق تو بہت پہلے سے ہی تھا اپنے چینلز کی بلنڈنگز کی تزین آرائش ہمیشہ سے خود کرواتے رہے اور آج پنجاب کی نگران وزارت اعلی ملنے کے بعد ریکارڈ کنسٹرکشن کروا رہے ہیں۔ ہر طرف انڈز پاس ، اوور ہیڈ پل اور دیگر تعمیرات کا سلسہ جاری ہے۔ کبھی کبھی تو یوں بھی لگتا ہے کا سارا پنجاب لاہور ہی ہے اور ہم نے لاہور کو دنیا کا ماڈل کنکریٹ سٹی بنا کر باغوں کے اس شہر کا قدرتی حسن ختم کردینا ہے۔
یورپ میں رہتے ہوئے مجھے کچھ ہی عرصہ ہوا ہے لیکن اس عرصے میں نے یہ ضرور دیکھ اور سمجھ لیا ہے کہ یہ لوگ آلودگی کو موت، آلودگی پھیلانے کو جرم اور آلودگی پھیلانے والے کو مجرم سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک آلودگی ان کی زندگیوں میں ایسے حرام قرار دیدی گئی ہے جیسے اسلام میں شراب حرام ہے۔
اس بات کا بالکل مطلب نہیں ہے کہ یورپ میں کنسٹرکشن کا کام نہیں ہوتا یہاں سب کام ہوتے ہیں لیکن ہر کام کی ایس او پیز ہوتی ہیں جن پر پوری طرح سے عمل کیا جاتا ہے جس میں سب سے پہلے یہاں جتنا بھی کام ہوتا ہے اس میں علاقہ مکین اور راہ گزر کو کوئی بھی تنگی نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی کام کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ اس کو کرنے میں اتنی آلودگی پھیلا دی جائے کہ شہر آلودگی میں نمبر ون بن جائے۔ دوسری بات یہ کہ کوئی بھی کام مکمل پلان کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کے بعد دہائیوں تک دوبار کچھ بنانے کی ضرورت نہ پیش آئے۔ کام صرف دن کے آٹھ سے دس گھنٹوں کیا جاتا ہے جوایک نارمل أوقات کار ہیں جن میں ہفتہ وارچھٹیاں بھی شامل ہوتی ہیں تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ چنانچہ ان سب سے ہٹ کرآلودگی نہ پھیلے اس بات کا خیال سب سے زیادہ رکھا جاتا ہے اور کام کے بعد مکمل صفائی کی جاتی ہے۔
بات ہورہی تھی محسن سپیڈ کی جو ستر دنوں میں انڈر پاس بنا کر ریکارڈ بنا چکی ہے اور اس کے بعد وہاں پر پڑے ہوئے ملبے کی وجہ سے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کی وجہ سے آلودگی میں کتنا اضافہ ہورہا ہے۔ محسن نقوی نے بھی وہی راستہ اپنایا اور وہی کام کیے جو شہباز شریف نے کیے۔ آخر ہمارے حکمران ہمیشہ اس کام پر زیادہ فوکس کیوں کرتے ہیں جن میں ٹھیکے داری جیسے کام ہوتے ہیں جس میں اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو نوازا جاتا ہے۔
یہ حکمران ایسا کوئی کام کیوں نہیں کرتے جس سے ہماری عوام اور نئی نسل کے ساتھ ہمارے ماحول کو بھی فائدہ ہو۔ گزشتہ چند سالوں سے ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں آنے والے سیلابوں سے بدترین تباہی ہوئی اور اب تک لوگ بے یارو مددگار ہیں لیکن یہ حکمران پھر بھی نہیں جاگے اور اب تک ایسے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیے جس سے اگلے مون سون میں ممکنہ سیلاب سے نمٹا جاسکے۔ ہمارے نگران وزیر اعلی اور وزرا جس مقصد کے لیے آئے وہ تو کر نہ سکے اور وہ کام کیوں کررہے ہیں جو ان کا کام نہیں ہیں؟ محسن صاحب سے گزارش ہے کہ اگر آپ عوامی خدمتی کا جذبہ رکھتے ہیں تو آپ وہ کام کریں جس سے لاہور سموگ کے اندھیروں سے نکل سکے اور یہاں کے باسی سانس لے سکیں نہ کہ صرف ٹھیکے داری والے کام کرتے جائیں۔