…. قلم کٹہرا…..
تحریر: چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور.
لڑکی کا گھر سے بھاگ کر شادی کرنا ایک بہت حساس معاملہ ہے ہم وکیل حضرات کا اکثر بیشتر ایسے کلائنٹس سے واسطہ پڑتا ہے. مجھے یاد ہے کہ لاہور کچہری میں مجھے وکالت شروع کئے تین چار ماہ ہی ہوئے تھے ابھی چند فیملی کیسز ہی میرے پاس تھے تو میرے پاس کورٹ میرج کا پہلا کیس آیا تھا.
یہ بھی ایک دلچسپ کیس تھا جس کی تفصیلات پر قلم کشائی پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں. فی الحال ہم ایسے کیسز کے محرکات میں سے سب سے اہم محرک پر بات کر لیتے ہیں. میڈیکل سائنس کی رو سے انسان و حیوانات میں پائی جانے والی جنسی خواہش ایک جسمانی اور فطری عمل ہے جیسا کہ بھوک اور پیاس ایک جسمانی اور فطری عمل ہیں لہذا آپ اس سے منہ موڑ نہیں سکتے.
مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ جنسی تسکین کا حصول بھی بھوک ہی کی مانند ہے. انسان بھوک کےلیے حرام اشیاء سے پرہیز کرتا ہے مگر کتنے دن؟ ایک دن؟ ایک ہفتہ؟ ایک ماہ؟ ایک سال؟
یہاں یہ صورتحال ہے کہ ایک پاؤں جوانی میں تو دوسرا بڑھاپے میں ہوتا ہے مگر نکاح نہیں ہورہا ہے. اپ اپنے بیٹے کو یہ نہیں کہیں گے کہ صبر کرو، بھوکے رہو، برداشت کرو، مہینوں بھوکے رہو۔
اس عمل سے آنکھیں پھیرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے. وقتی طور پر ہم تربیت پر بات نہیں کرتے کیونکہ "بھوک تہذیب کے اداب بھلا دیتی ہے”. اب سوال یہ ہے کہ جب جنسی عمل ہماری جبلت میں شامل کر دیا گیا ہے تو پھر اس سے نبرد آزما کیسے ہونا ہے؟
یہ سوال بہت اہم ہے کہ اگر بھوک اور پیاس کےلیے حلال روزی روٹی کمانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہی کوشش جنسی خواہش کی تکمیل کےلیے کیوں نہیں کی جارہی ہے؟
ہر شخص اس پر مختلف رائے رکھتا ہے. بیشتر لوگ روزمرہ معمولات سے واقف نہیں ہیں لہٰذا وہ یہ تاویل دیتے ہیں کہ پہلے لڑکے کو معاشی حوالے سے مضبوط ہونا چاہیے. صورتحال یہ ہے کہ آج ایک بیروزگار نوجوان لڑکا سستے انٹرنیٹ پیکج کی بدولت کسی لڑکی سے بات کررہا ہے۔ وہ لڑکا اپنے معاشی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک گرل فرینڈ پال رہا ہے جبکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ گرل فرینڈ رکھ سکتا ہے تو بیوی کیوں نہیں؟ لہٰذا اس پہلو پر بھی کھل کر بات ہونی چاہیئے.
کُل ملا کر بات اتنی سی ہے کہ فی زمانہ ہمارا اردگرد کا ماحول بہت بدل چکا ہے. جسمانی ضروریات کی تکمیل کے لیے ایک بالغ کے پاس جائز رشتہ ہونا چاہیے۔ یہ رشتہ نکاح ہے۔ ضرورت اب بھی پوری کی جارہی ہے مگر ناجائز رشتہ سے، بہتر نہیں ہوگا کہ یہ ضرورت جائز طریقے سے پوری کی جائے؟
میری نظر میں بہتر حل یہی ہے کہ بلوغت کیساتھ ہی نکاح کیا جائے مگر رخصتی میں کچھ تاخیر کی جائے تاکہ دونوں معاشی استحکام کی حد تک پہنچ جائیں۔ منکوحہ سے باتیں کرنا گرل فرینڈ سے آدھی رات کو باتیں کرنے سے بہتر ہے۔ بالفرض اگر وہ دونوں جسمانی تعلق قائم کرکے جنسی تسکین بھی حاصل کر لیتے ہیں تو یہ کوئی اتنا معیوب نہیں لگے گا بہ نسبت اس کے کہ کوئی لڑکا کسی لڑکی کو گھر سے بھگا کر لے جائے یا کوئی لڑکی کسی لڑکے کیلئے اپنے گھر سے بھاگ جائے.
آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے نکاح پہلے ہوا تھا مگر رخصتی بعد میں ہوئی کیونکہ وہ نوعمر تھیں۔ ہم اس سنت پر عمل کیوں نہیں کررہے؟
آخری اور سب سے اہم بات، ہمارے معاشرے میں تاخیر سے شادی کا رواج ہماری موجودہ ادھیڑ عمر نسل نے ڈالا ہے ہم سے پہلی نسل میں ایسا بہت کم تھا. یہ سب اس موجودہ نسل کا کیا دھرا ہے اور بجائے پشیمانی یہ پورے دھڑلے سے ایک ہی رٹی رٹائی دلیل دیتے نظر آتے ہیں کہ جی اللہ تعالیٰ کو ایسے ہی منظور تھا۔ گویا وہ اپنی غلطیوں کا زمہ دار بھی مقدر کو ٹھہرا رہے ہوتے ہیں. کیا ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے دادا پڑدادا کی شادی کس عمر میں ہوتی تھی؟
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔