تحریر: عزیز اللہ خان ایڈوکیٹ
کل مجھے ایک فیس بک فرینڈ کا ان باکس میسج ملا کے آپکا کالم "نوری بمقابلہ ناری "کو راو تسلیم صاحب جو اسکے فیس بک فرینڈ ہیں نے اپنے پیج پر شئیر کیا ہوا ہے ۔جس پر ایک SPصاحب نے آپکے نام کچھ کمنٹس کیے ہوئے ہیں میں نے فوری طور پر راو تسلیم صاحب کی فیس بک آئی ڈی تلاش کی ۔تصویر دیکھتے ہی مجھے یاد آیا کے راو صاحب اور میری ملاقات 2013میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ اسسٹنٹ کمشنر سٹی بہاولپور تھے اور میں DSPیزمان تھا ۔
راو صاحب سے میری وہ ملاقات تب ہوئی جب ہم نے ایک ڈیوٹی کے سلسلہ میں تقریباََ سارا دن ساتھ گزارا ۔راو صاحب پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے کربطور مجسٹریٹ سول سروس میں آئے تھے ۔ان دنوں پنجاب سول سروس اور فیڈرل سول سروس کے افسران کی آپس میں شدید جنگ کے بعد پنجاب سول سروس کے افسران پرموشن اور پوسٹینگ میں 50/ 50 کا کوٹہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور اس کی خاطر پنجاب سول سروس کے افسران نے جیلیں بھی دیکھیں ان پہ مقدمات بھی درج ہوئے لیکن بلا آخر فتح حق کی ہوئی ۔راو صاحب بھی ان افسران میں سے ایک تھے جنھوں نے جیل یاترا بھی کی اور ان پر مقدمات بھی درج ہوئے۔
راو صاحب سے ملاقات کے دوران ،میں نے یہ محسوس کیا کے وہ ایک سچے ،کھرے انسان ہیں اور بطور افیسر اپنےکام کو خوب سمجھتےہیں۔ جو بھی بات کرتے ہیں وہ دل سے کرتے ہیں۔
راو تسلیم صاحب نے اپنی پوسٹ پر میرے بارےمیں بھی یہ ریماکس لکھے کہ میں پولیس کے سسٹم کے بارے میں جو با ت آج لکھ رہا ہوں اس وقت دوران ملازمت بھی یہی بات کرتا تھا ۔یہ میرے لیے ایک اعزاز کی بات ہے خاص طور ان لوگوں کے لیے جو میرے کالمو ں پر اکثر یہ ریماکس دیتے ہیں کہ میں ملازمت میں تو بولا نہیں اور اب جب ریٹائر ہوگیا ہوں تو پولیس کے سسٹم کے خلاف بول رہا ہوں راو صاحب کے میرے بارے میں لکھے گئے کمنٹس ان کے سوال کا جواب ہیں
ایس پی جن کا نام محمد معصوم ہے نے اپنے ریمارکس میں لکھا کہ ہر آدمی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنےآپ کو دانشورسمجھنے لگتا ہے اور جب ڈی ایس پی ملازمت میں تھے اس وقت انھوں نے اپنے کولیگز اور جونئیرز کو انویسٹی گیشن کے بارے میں کیوں نہیں سیکھایا اور لوگوں سے بداخلاقی کرنے پر کیوں نہیں روکا۔
میرےخیال میںSPصاحب میرے بارے میں شاید کچھ نہیں جانتے نہ ہی میری ان کیساتھ کبھی پوسٹنگ رہی شاید انھیں معلوم نہیں کہ ذوالفقار چیمہ صاحب سابقہ IG ، مشتا ق سکھیرا سابقہIG ,اللہ ڈینو خواجہ موجودہ آئی جی موٹر وے جیسے افسران میری کارگردی اور قابلیت کی ہمیشہ تعریف کیا کرتے تھے ۔مجھے SPمحمد معصوم کے ریماکس سے بلکل کوئی دکھ نہیں ہوا میں شاید ان کے ریماکس کا جواب بھی نہ دیتا اگر وہ اس میں میرا نام نہ لکھتے۔
یہ PSPکلا س کی فطرت میں ہے کے وہ کسی کی بات سننا پسند نہیں کرتے اور نہ ہی خود پر کی جانے والی تنقید اُن سے برداشت ہوتی ہے ۔ایک ایسی نوری مخلوق جو سونے کا چمچ اپنے منہ میں لے کر اس محکمہ میں آتے ہیں اور محکمہ کے شہزادے کہلاتے ہیں ۔وہ بھلا کسی رینکر آفیسر کی بات اُنہیں کیوں برداشت ہو ؟
انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ ان کے خلاف کسی نے رینکر افسر نے لکھنے کی جرت کیوں کی؟؟ میرے بہت سے کولیگز اور پولیس ملازمین جو پہلے مجھے ٹیلی فون کرتے تھے یا میرا ٹیلی فون سن لیا کرتے تھے اب ڈر کے مارے ایسا نہیں کرتےکے کہیں وہ بھی زیر عتاب نہ آجائیں ۔۔
ضلعی پولیس آفیسر DPO کے پاس چار چار گاڑیاں زیر استعمال ہوتی ہیں ۔صبح کو ایک گاڑی ، دوپہر کو دوسری گاڑی ، لمبے سفر کے لیے تیسری اور بچوں کے لیے چوتھی گاڑی استعمال ہوتی ہے۔ ان تما م گاڑیوں میں جتنا فیول استعمال کرنا چاہیں کرسکتے ہیں جبکہ تھانے اور سرکل آفیسر کی گاڑیوں میں محدود پیٹرول یا ڈیزل ملتا ہے جو آٹھ لیٹر روزانہ ہوتا ہے ڈی ایس پی ، سرکل آفیسر کو عام ڈالے دیے جاتے ہیں جبکہ اے ایس پی کو جیپ یا ڈبل کیب ڈالہ دیا جاتا ہے
ڈی پی او کے پاس لا محدود سرکاری فنڈز ہوتے ہیں وہ کہاں استعمال ہوتے ہیں کوئی اس کے بارے میں نہ پوچھ سکتاہے نہ ہی یہ بتاتے ہیں۔ میری دریا خان میں بطور DSPپوسٹینگ تھی ۔ایک رینکر SPچوہدری خالد مسعود صاحب DPO بھکر تھے جو انتہائی دیانت دار پولیس آفیسر تھے ایک دن دوران میٹنگ انھوں نے بتایا کے ضلع میں میرے پاس اتنے فنڈز ہیں کے مجھے سمجھ نہیں آتی کے میں انھیں کہاں خرچ کروں ۔انھوں نے تمام تھانوں ، چیک پوسٹ ہائے پر، تمام ملازمین کے لیے میس کا انتظام کیا ۔تمام برتن و دیگر سامان خوردونوش کے لیے بھی DPOصاحب پیسے دیا کرتے تھے ۔گرمیوں میں تمام تھانوں پر الیکڑک واٹر کولر نصب کروائے ۔بیرکس کی مرمت کروائی جتنی ویلفیر انھوں نے اپنے پولیس ملازمین کے لیے کی میں نے اپنی پوری سروس میں نہ دیکھی۔
پی ٹی آئی حکومت نے آتے ہی اعلان کیا تھا کے تمام افسران ایک گاڑی کے علاوہ دوسری گاڑی اپنے پاس نہیں رکھیں گے مگر یہ احکامات ہوا میں اڑا دیئے گئے ۔اب بھی ان کے پاس پانچ پانچ سرکاری گاڑیاں ہیں۔ کسی بھی اچھے سکول یا کالج کے باہر چلیں جائیں ان افسران کے بچے سرکاری گاڑیوں میں سکول آتے جاتے نظر آتے ہیں اور گھر میں بھی یہی گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔مجھے آج بھی یادہے کہ بہاولپور پوسٹینگ کے دوران ایک RPOنے نیا ڈبل کیب ڈالہ اپنے ایک دوست کو دیا ہوا تھا جب تک ان کی پوسٹینگ رہی یہ ڈالہ ان کے دوست کے تصرف میں رہا
ایس پی محمد معصوم نے یہ بھی لکھا کے کیا ایک پٹواری کسی ڈی سی گھر میں جاتا ہے جو اے ایس آئی کمانڈنٹ کے گھر جائے میری ان سے صرف یہ گزارش ہے کہ وہ بات اس لیئے لکھی تھی کہ ہمیں ڈرایا جاتا تھا
آپ خطاء کرنے پر سزا دیں مگر عزت نفس مجروح نہ کریں کریں ۔جس طرح وہاڑی میں, آر پی او مُلتان نے ڈی ایس پی کو حوالات تھانہ میں بند کردیا ان کی تصویر بنائی اور پھر اپنی نوکری بچانے کے لیے وہ تصویر میڈیا پر لگوائی دو دن بعد اُسی ڈی ایس پی کو ایک ایس پی نے تفتیش میں بے گناہ قرار دیا ۔اگر وہ قصوروار تھا اور آرپی او مُلتان نے خود انکوئری کرنے کے بعد اسے حوالات میں بند کروایا تھا تو پھر وہ بے گناہ کیسے ہو گیا ؟؟؟ اگر اس کی جگہ کوئی اے ایس پی ہوتا تو کیا اُسکو بھی حوالات میں بند کرکے اسکی تصویر بناتے؟؟؟ کیا قصوروار صرف رینکرز ہوتے ہیں
پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں محکمہ پولیس کے کسی PSPافسر کو ہم نے نہ تو بے ایمان پایا نہ ان سے کوئی غلطی ہوئی اور نہ انھیں کوئی سزا ملی ۔۔اب بھی وہ افسران جن کو اس حکومت نے کچھ عرصہ قبل کرپشن کے الزام میں نیب نے گرفتار کیا وہ کُچھ عرصہ جیل میں رہے ضمانت کے بعد پھر انھیں پوسٹینگ دے دی گئی ۔
سانحہ ماڈل ٹاون میں صر ف SHOاور چند ملازمین کو گرفتار کیا گیا بقیہ وہ ملازمین جو نوری مخلوق تھے انھیں دیگر صوبوں میں بھیج دیا گیا مگر کچھ ایسے ْ افسران جو کہ صوبائی سروس کے تھے آج بھی ا ن کی پوسٹینگ اور پرموشن نہیں ہو رہی کیونکہ وہ ناری ہیں۔
میں پہلے بھی ہمیشہ یہ بات کرتا اور لکھتا رہتا ہوں کے میری لڑائی کسی ایک شخص سے نہیں ہے میری لڑائی محکمہ پولیس اور دیگر محکمہ جات کے اس سسٹم سے ہے جو انگریز نے اس لیے بنایا کےہم ان کی غلامی کرتے رہیں انگریز تو چلے گئےمگر آج بھی ہم انھی کے بنائے ہوئے 1861 کے قوانین کے تحت ان کالے انگریزوں کی غلامی کر رہیے ہیں۔
میں اپنی اینگ کھیل چکا ہوں اپنی نوکری کے دوران بھی میں بولتا تھا جسکی سزا مجھے گھر سے دور علاقوں میں پوسٹینگ کی صورت میں ملتی رہی ۔میں نے اتنی ہمت تو کی کے ریئاٹر منٹ کے بعد اس سسٹم کے خلاف لکھ رہاہوں میرے بہت سے بھائی جو ریئاٹر ہوئے وہ تو شاید میرے اس عمل کو بھی برا سمجھتے ہیں ۔
ان رینکرز اور پی ایس پی کلاس کے درمیان یہ کشیدگی ہمیشہ رہے گی جب تک ڈسٹرکٹ مینجمٹ کے صوبائی افسران کی طرح پولیس کے صوبائی افسران پرموشن اور پوسٹینگ میں اپنا کوٹہ حاصل نہیں کر لیتے انھیں بھی ہمت کرنی ہو گی ، جیل جانا ہوگا، قربانیاں دینی ہوگی۔۔ عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ )نے بھی اس سلسلہ میں ایک فیصلہ کیا تھا مگر آج تک اس پر عمل نہ ہو سکا ان گونگے اور بہرے رینکرز کو اپنے حق کے لیے لڑنا ہوگا ورنہ اسی طرح زلت و رسوئی اور محکومی ان کا مقدر رہے گی۔
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@qalamclub.com پر ای میل کیجیے۔