لاہور(نیوز ڈیسک ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ دہشتگردوں کے پاس افغانستان میں امریکہ کے چھوڑے گئے جدید ہتھیار ہیں، خیبر پختوانخواہ پولیس کے پاس جیسے ہتھیار ہیں اس سے ان دہشتگردوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا،ملک میں دہشتگردی بڑھ رہی ہے، اس سے وقت پر نہ نمٹا گیا تو اس کے انتہائی منفی اثرات ہوں گے، اگر موجودہ افغان حکومت سے تعلقات خراب کر لئے تو دہشتگردی کے خلاف جنگ ہمارے لئے عذاب بن جائے گی ۔
اپنی رہائشگاہ زمان پارک سے دہشتگردی کے خلاف منعقدہ سیمینار میں ویڈیو لنک سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ دہشتگردی ہے اور اگر اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو اس کے نقصانات بڑھ سکتے ہیں ، پاکستان کے معاشی حالات اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمیں امریکہ کی جنگ میں کولیشن سپورٹ فنڈ سے پیسے ملتے تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو ملنے والد فنڈز سے کئی گنا زیادہ نقصان ہوا ۔
میں کیوں کہتا جارہا تھاکہ ہمیں امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں غیر جانبدار رہنا چاہیے اس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے ،اس کے اثرات ابھی تک پاکستان کے اندر ہیں ۔نائن الیون کے واقعہ کے بعد جنرل مشرف نے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو بلایا اور یہ موقف رکھا کہ ہم صرف امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کریں گے۔ جنہوں نے امریکہ پر حملہ کیا ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر وہ لوگ پاکستان میں ہیں تو ان کو امریکہ کے حوالے کرنا چاہیے ،نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں ہے لیکن آہستہ آہستہ امریکی دبائو میں آ کر ہم پوری طرح اس جنگ میں شریک گئے ۔ فوج کو وزیرستان میں بھیجا جارہا تھا میں قومی اسمبلی سمیت ہر فورم پر کہا کہ ہمیں فوج نہیں بھیجنی چاہیے ۔
قائد عظم نے 1948میں قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلا لی تھی اور ان کا کہنا تھاکہ قبائلی علاقے کے لوگ ہماری فوج ہیں وہاں فوج کی ضرورت نہیں ہے ۔ قبائلی علاقے میں کبھی مسئلہ نہیں پڑا وہ جرائم سے پاک علاقے تھے ۔اس سے قبل جب افغان جہاد لڑی گئی تو وہ قبائلی علاقوںسے لڑی گئی ،مجاہدین یہاں سے جاتے تھے ، انہوںنے براہ راست شرکت کی یا افغانستان میں طالبان کی مدد کی ۔ نائن الیون کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہم امریکہ کی جنگ میں شرکت کر رہے ہیں ، یہ جہاد اور دہشتگردی کے خلاف جنگ ہے تو یہ 180ڈگری کایوٹرن لیا تھا ، قبائلی علاقوں کو جہاد کے لئے تربیت دی گئی اس لئے انہوں نے اس کو نہیں مانا اور وہاں سے بھی مزاحمت آئی ۔ القاعدہ کے لوگ بھی وہاں آ گئے اور ان میں سے تحریک طالبان پاکستان بن گئی یہ اسی رد عمل میں بنی تھی ،انہوں نے پاکستان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا کیونکہ پاکستان امریکہ کی مدد کر رہا تھا ۔
اگر ہم غیر جانبداررہتے تو ہمارے اوپر یہ واردات نہیں ہونی تھی ، امریکہ افغانستان کو فتح نہیں کر سکا کیونکہ خود کش حملے کا توڑ نہیں تھا۔جب ہمارے خلاف بیانیہ آ گیا کہ پاکستان امریکہ کی مدد کر رہا ہے تو یہاںبھی خو د کش حملے کریں گے یہ بھی جہاد ہے ۔انہوںنے کہا کہ اس جنگ میں ہمارے دشمن بھی کود پڑے اور انہوں نے بھی مالی معاونت کی کیونکہ جب اپ گندا پانی کھڑا ہونے کی اجازت دیتے ہیں مچھر آ جاتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جب تبدیلی آئی اور امریکہ چھوڑ کر چلا گای تو یہ پاکستان کے لئے سنہری موقع تھا ۔ جو غنی حکومت تھی اس کا جھکائو بھارت کی طرف تھا ،تین مختلف دہشتگرد گروپس پاکستان میں آپریٹ کر رہے تھے ، ہماری حکومت نے پوری کوشش کی کہ غنی حکومت میںکوئی مداخلت نہیں کرنی ، اس لئے ہم فیصلہ کیا جو پرانی پالیسی تھی جن میں کئی گروپس کو ہم بیک کرتے تھے اب افغانستان کے لوگ اپنے فیصلے خود کریں ہم کوئی مداخلت نہ کریں ، طالبان اور غنی حکومت سیاسی حل نکلے ۔ جب طالبان کی حکومت آئی تو پہلی یہ وہ حکومت تھی جس کا جھکائو پاکستان کی طرف تھا ۔
ہم نے امریکہ اور افغانستان میں مذاکرات کے لئے انتظام کیا تھا ، یہ سنہری موقع تھا جو تحریک طالبان پاکستان چلی گئی تھی ، یہ 30سے40 ہزار لوگ تھے ان میں سے لڑنے والے 5سے 7ہزار لوگ تھے ،یہ حساس اداروں کی رپورٹس تھیں ، پاکستان نے امریکہ کے جانے کے بعد کم ازکم تین لاکھوں کے انخلاء کویقینی بنایا ، جب افغانستان میں پاکستان کی طرف جھکائو رکھنے والی حکومت آ گئی تو انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان واپس جائے ، ان کی یہاں سیٹلمنٹ کی بہت ضرورت تھی ،ان کے ساتھ سیٹلمنٹ کرنا تھی ۔اس کے لئے میٹنگز ہوئیں ، سیاسی جماعتیںفاٹا کا انضمام نا ممکن سمجھتی تھیں،ساری سیاسی جماعتیں بیٹھیں ، اس کی خیبر پختوانخواہ کو سب سے زیادہ ضرورت تھی ، اس کا نقصان اور فائدہ خیبر پختوانخواہ کو ہونا تھا ۔
انہوں نے کہا کہ یہ طے ہوا کہ فاٹا کے انضمام کے لئے تمام صوبے این ایف سی سے تین فیصد سالانہ دیں گے ، وعدے سب نے کر دئیے ،2018ء کے بعد صرف پنجاب اورر خیبر پختوانخواہ نے پیسے دئیے ، سندھ نے صاف انکار کر دیا اور بلوچستان نے بھی پیسے نہیں دئیے ۔انہوںن ے کہا کہ جب وفاقی حکومت کو بیرونی سازش کے تحت گرایا گیا اور (ن) لیگ کی حکومت آئی تو انہوں نے فنڈز روک دئیے ،کسی کوسمجھ نہیں آئی یہ کتنا اہم تھاکہ تحریک طالبان پاکستان یہاں آئے ان کی ری سیٹلمنٹ پر توجہ دینی چاہیے تھی ، نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں خاص طو رپر پلان کیا تھافاٹا انضمام میں اضافی فنڈز دینے ہیں کیونکہ وہاں دہشتگردی کی جنگ کے اثرات ہیں ، ان کو ری سیٹل کرنا سب سے مشکل تھا،ان پر توجہ دینے کا وقت تھا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے امپورٹڈ ٹولے نے کرپشن کیسز ختم کرنے کے کسی چیز پر توجہ نہیں دی ،معیشت کے حالات آپ کے سامنے ہیں ، سیلاب کے نام پر ساری دنیا میں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں ۔
معاشی طو رپر آج جو حالات ہیں وہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے ، معیشت چھ فیصد پر ترقی کر رہی تھی ،برآمدات ،سروسز انڈسٹری ،زراعت ،ٹیکس کلیکشن اوپر جارہی ہو آج معیشت کو کہاں کھڑا کر دیا ہے کہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا بحران ہے ، دہشتگردی بڑھنا شروع ہو گئی اور اس پر توجہ ہی نہیں دی جارہی ، اس سے سب سے زیادہ خطرہ پختوانخواہ کو ہے ، صوبائی حکومت کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ بارڈرز کا کنٹرول وفاق کے نیچے ہے ، اگر ہم یہ سمجھ رہے کہ ہماری پولیس ان ہتھیاروں سے ان دہشتگردوں کا مقابلہ کرے گی جن کے پاس امریکہ کے چھوڑے ہوئے جدید ہتھیار ہیں تو یہ سب کی غلط فہمی ہے ۔
کراچی میں آج بھی رینجرز ہیں ، جو تربیت ان دہشتگردون کی ہے ان کا کوئی مقابلہ نہیں ۔اگر یہاں پر مسائل شروع ہو گئے تو پاکستان برداشت نہیں کر سکے گا ہماری معیشت کھڑی نہیں ہو سکے گی اس کے اثرات پورے پاکستان میں جائیں گے ۔خیبر پختوانخواہ میں پانچ سے چھ سو پولیس والے شہید ہو چکے ہیں، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ ہوتی ہے لیکن جو صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہے اس کو بلایا نہیں جاتا ۔انہوں نے کہا کہ یہ پراپیگنڈا کیا جارہا ہے ہم نے تحریک طالبان پاکستان سے امن کی بات کی ، لوگوں کو گمراہ نہ کریں جھوٹ نہ بولیں ،سارے اسٹیک ہولڈرز بیٹھے تھے سب کے سامنے پریزنٹیشن دی گئی تھی ان کو کیسے ری سیٹل کرنا ہے ، کیوں ہم نے ان کے ساتھ بات چیت کرنی ہے ۔
ملٹری آپریشن امن کا حصہ ہو سکتا ہے لیکن یہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتا۔ انہوںنے کہا کہ خطرناک چیز نظر آرہی ہے ایک دور غیر ذمہ دار زوزیر جنہیں عقل اور سمجھ نہیں جنہیں افغانستان کی صورتحال ،بارڈرز ایریاز اور نہ قبائلی علاقوں کا پتہ تھا ،بڑے غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہے ہیں کہ ہم افغانستان میں حملہ کریں گے ،اگر کوآپریشن بند ہو گئی تو اس کااثر یہ ہوگا کہ جو دہشتگردی شروع ہو گئی ہے یہ چلتی جائے گی ۔ کیوں افغانستان سے بات نہیں کی جارہی کہ باڑ توڑی جاری ہے ۔ وزیر خارجہ ساری دنیا کے چکر لگا رہا ہے لیکن سب سے اہم تو افغانستان جانا چاہیے تھا۔ ہم نے تعلقات خراب کر لئے تو دہشتگردی کے خلاف جنگ ہمارے خلاف عذاب بن جائے گی ۔ہمارا وزیر خارجہ امریکہ میں کہہ رہا ہے کہ آپ کی مدد چاہیے ، پھر سے امریکہ کی مدد لی تو یاد رکھیں مسائل بڑھیں گے،یہاں پر مسلسل انتشار پھیل جائے گا ۔ یہاں پر بین الاقوامی کرکٹ بحال ہوئی ہے ،میچز شروع ہوئے ۔
انہوں نے کہاکہ آج معیشت مسئلہ بنا ہوا ہے اور یہ مزید بنتا جائے گا ،ابھی سے دہشتگردی کے اوپر اتفاق رائے نہ کیا گیا ،خیبر پختوانخواہ جو سب سے متاثرہ صوبہ ہوا تھا ان کو ساتھ شامل کر کے فوری طور پر مذاکرات اور بحث کریں کہ لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے ۔